کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 47
15- واقعہ یہ ہے کہ تمام اصحاب رسول اللہ پر ہمیشہ اس حدیث: ’’مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ‘‘ کا خوف طاری رہتا تھا، (یہ حدیث صحابہ کرام میں سے باسٹھ (62) (سے زیادہ) صحابیوں سے مروی ہے جن میں کہ عشرہ مبشرہ بھی شامل ہیں،) [1] پس ان سے عمداً کذب بیانی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام اس درجہ عدول و صدوق ہیں کہ مشاجرت باہمی اور فتن کے مواقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط کہنے کی جرأت نہ کر سکے۔ حافظ رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’إن الأمة مجمعة علي تعديل جميع الصحابة ومن لابس الفتن منهم‘‘ [2] یعنی ’’تمام امت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عدول ہیں اور وہ صحابہ بھی عدول ہیں جنہوں نے جنگی فتن اور باہمی مشاجرت میں شرکت کر لی تھی۔‘‘ 16- حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ اور سخاوی رحمہ اللہ وغیرہما حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے صحابہ کرام کے عدول ہونے کے متعلق ناقل ہیں: ’’وحكي ابن عبدالبر في الاستيعاب إجماع أهل الحق من المسلمين وهم أهل السنة والجماعة عليه سواء من لم يلا بس الفتن منهم أو لا بسها إحسانا للظن بهم‘‘ [3] یعنی ’’ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں اس پر مسلمانوں میں سے اہل حق یعنی اہل سنت و جماعت کا اجماع نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام تمام کے تمام عدول ہیں، جو فتن و مشاجرت میں شریک ہوئے وہ بھی اور جنہوں نے اپنے آپ کو ان فتن سے بچائے رکھا وہ بھی۔‘‘ (17) حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’إنما وضع اللّٰه عزوجل أصحاب رسوله الموضع الذي وضعهم فيه بثنائه عليهم بالعدالة والدين والإمامة لتقوم الحجة علي جميع أهل الملة بما أورده عن نبيهم من فريضة و سنة فنعم العون كانوا له علي الدين في تبليغهم عنه إلي من بعدهم من المسلمين‘‘ [4] یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے صحابیوں کو ایک بڑا رتبہ بخشا ہے اور انہیں اس رتبہ پر عدالت، تدین اور امامت کی مدح و ثناء کے ساتھ فائز کیا ہے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرائض و سنن کے متعلق ان کی روایات تمام اہل
[1] مقدمۃ ابن الصلاح: ص 227-228 [2] نفس مصدر مع التقیید: ص 260 [3] فتح المغیث للسخاوی: 4/100، التقیید والایضاح: ص 261، الاستیعاب: 1/8، فتح المغیث للعراقی: ص 350، الاحکام للآمدی: 2/129، منتہی الوصول والامل: ص 80، بیان المختصر: 1/713، التقریر والتحبیر: 2/260، شرح اصول الاعتقاد للالکائی: 1/159-160 [4] الاستیعاب: 1/7