کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 43
میں سے نہ کوئی مجروح ہے اور نہ ضعیف۔ اگر ان میں کوئی مجروح، ضعیف یا غیر عدول ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد میں اس کا استثناء ضرور موجود ہوتا اور آپ یوں فرماتے: ’’ألا ليبلغ فلان و فلان منكم الغائب‘‘ مگر چونکہ بعد میں آنے والوں کے لئے تبلیغ کے دئیے گئے اس امر میں ان سبب کا بلا تخصیص ذکر ہے تو یہ اس بات پر دلالت ہے کہ تمام صحابی بلا استثناء عدول تھے، اور/ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعدیل فرمانا کافی ہے۔‘‘ [1] 3- امام ابو محمد بن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تمام صحابہ قطعی طور پر جنتی ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: [لَا يَسْتَوِي مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَـٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنَىٰ] [2] (یعنی: جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا وہ برابر نہیں، ان لوگوں کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور کفار سے جہاد کیا اور اللہ تعالیٰ نے سب سے (ثواب) نیک کا وعدہ تو کیا ہے۔) اور [إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَـٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ [١٠١] لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا ۖ وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ [١٠٢] لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ] [3] (یعنی: جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے بھلائی مقرر ہو چکی ہے وہ اس سے دور رکھے جائیں گے حتیٰ کہ وہ اس کی آواز تک بھی نہ سن پائیں گے اور جو کچھ ان کا جی چاہے گا اس میں (یعنی ہر طرح کے عیش اور لطف میں) ہمیشہ رہیں گے۔ ان کو (اس دن کا) بڑا بھاری خوف غمگین نہیں کرے گا۔) پس ثابت ہوا کہ جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفید ہوا اس سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کر رکھا ہے اور جس کے لئے اللہ کی طرف سے بھلائی مقرر ہو چکی ہو وہ جہنم سے دور رہے گا اور اس کی آواز بھی نہ سن سکے گا۔ جو کچھ اس کا دل چاہے گا (کھائے پئے گا) اس دن کا بھاری خوف بھی اس کو غمزدہ نہیں کرے گا۔ پس جمیع صحابہ جنتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہ ہو گا کیونکہ وہ آیت سابقہ کے مخاطب ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ انفاق و قتال کے ساتھ اس امر کی تقیید ہے لہٰذا جن صحابہ میں یہ صفت نہ پائی جاتی ہو وہ اس خطاب سے خارج ہوں گے، اسی طرح ایک دوسری آیت میں احسان کی تقیید بھی مذکور ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: [وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ] [4] (یعنی: اور جو مہاجرین اور انصار (ایمان لانے میں سب سے) سابق اور مقدم ہیں اور وہ تمام لوگ جو کہ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے)، لہٰذا جو صحابی اس صفت سے متصف نہیں وہ بھی اس خطاب سے خارج ہو جائے گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’إن التقييدات المذكورة خرجت مخرج
[1] صحیح ابن حبان: 1/123 [2] الحدید: 10 [3] الانبیاء: 101-103 [4] التوبۃ: 100