کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 34
طور پر علامہ ابو الحسین ابن القطان رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’هو من ظهر منه مع الصحبة الاتصاف بالعدالة فمن لم يظهر منه ذلك لا يطلق عليه اسم الصحبة‘‘ [1]
اور علمائے حنفیہ میں سے قاضی ابو عبداللہ الصمیری کا قول ہے:
’’هو من رأي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و اختص به اختصاص الصاحب و إن لم يرو عنه ولم يتعلم منه‘‘ [2]
اور ماوردی کے الفاظ میں شرط یہ ہے کہ:
’’أن يتخصص بالرسول و يتخصص به الرسول صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [3]
اور الکیاالطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هو من ظهرت صحبته لرسول اللّٰه صحبة القرين قرينه حتي يعد من أحزابه و خدمه المتصلين به‘‘ [4]
لیکن اس آخر الذکر قول کے متعلق صاحب ’’الواضح‘‘ فرماتے ہیں: ’’وهذا قول شيوخ المعتزلة‘‘[5]یعنی ’’یہ شیوخ معتزلہ کا قول ہے‘‘ اور علمائے شیعہ کے نزدیک ’’صحابی‘‘ کی تعریف یہ ہے: ’’الصحبة تشمل كل من صحب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم أو رآه أو سمع منه فهي تشمل المؤمن والمنافق والعادل والفاسق والبر والفاجر– فالصحبة ليست بمجردها عاصمة تلبس صاهبها إيراد العدالة و إنما تختلف منازلهم و تتفاوت درجاتهم بالأعمال‘‘ (نظرية عدالة الصحابة والمرجعية السياسية في الاسلام للمحاسي، ص 59)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’پہلا قول‘‘ کے تحت بیان کردہ ’’صحابی‘‘ کی تعریف کے سوا باقی تمام اقوال و شرائط صحابیت کو بجا طور پر ’’شاذ‘‘ قرار دیا ہے، چنانچہ ’’الإصابۃ فی تمیز الصحابۃ‘‘ کے مقدمہ میں ’’صحابی‘‘ کی تعریف بیان کرنے کے بعد ان اقوال و شرائط پر تعاقب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ووراء ذلك أقوال أخري شاذة كقول من قال لا يعد صحابيا إلا من وصف
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/88
[2] نفس مصدر: 4/88
[3] تدریب الراوی: 2/213
[4] فتح المغیث للسخاوی: 4/84
[5] نفس مصدر: 4/84