کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 33
فہرست سے خارج ہو جاتے ہیں، حالانکہ ان میں سے بعض ممیّز بھی تھے۔‘‘ [1] حافظ عراقی رحمہ اللہ ’’التقیید‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’صحیح بات یہ ہے کہ ’بلوغ‘ حد صحابیت کے لئے شرط نہیں ہے ورنہ اس سے ایسے بہت سے صحابہ خارج ہو جائیں گے جن کے صحابی ہونے پر اجماع ہے مثلاً عبداللہ بن الزبیر اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم۔‘‘ [2] علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ، نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ سے ناقل ہیں: ’’ولا يشترط البلوغ لوجود كثير من الصحابة الذين أدركوا عصر النبوة ورووا ولم يبلغوا إلا بعد موته صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [3] یعنی صحابیت کے لئے بلوغ بھی شرط نہیں ہے کیونکہ صحابہ کرام میں بہت سے ایسے افراد تھے جنہوں نے عہد نبوت پایا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت بھی کرتے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بالغ ہوئے تھے‘‘۔ اس شرط کے ناقابل قبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ (بعض) اہل علم حضرات سے اس شرط کی حکایت کرنے والا راوی بھی وہی کذاب واقدی ہے، جس کا کہ مختصر تعارف و ترجمہ اوپر ’’تیسرا قول‘‘ کے تحت گزر چکا ہے۔ 6- چھٹا قول: یحییٰ بن صالح المصری کا قول ہے: ’’هو من ادرك زمنه صلي اللّٰه عليه وسلم مسلما و إن لم يره‘‘ [4] یعنی ’’جس نے بحیثیت مسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہو وہ صحابی ہے خواہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا بھی نہ ہو۔‘‘ بعض اقوال: حد صحابی کی تعیین کے ضمن میں مذکورہ بالا چھ اقوال کے علاوہ بعض اور اقوال بھی ملتے ہیں، مثال کے
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/84، فتح المغیث للعراقی: ص 346، التقیید والایضاح: ص 252، 254، الکفایۃ للخطیب: ص 50، شرح جمع الجوامع للمحلی: 3/271-274، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: 1/12، تعجیل المنفعۃ: ص 126-127، اسد الغابۃ: 1/19، نزھۃ النظر: ص: 100-101، فتح الباری لابن حجر: 7/4، الأم: 6/156، تدریب الراوی: 2/212 [2] التقیید والایضاح: ص 254، تدریب الراوی: 2/210 [3] قواعد التحدیث للقاسمی: ص 200، حصول المامول للصدیق حسن خان: ص 65 [4] فتح المغیث للسخاوی: 4/88، فتح المغیث للعراقی: ص 346-347، تدریب الراوی: 2/212