کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 32
چنانچہ علامہ نسفی رحمہ اللہ ’’کفایہ الفحول فی علم الأصول‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اسم الصحابي يقع علي من طالت صحبته مع النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و أخذ عنه و عليه الجمهور و به قال الجاحظ و نصره الشيخ أبو عبداللّٰه‘‘ [1]
یعنی ’’صحابی نام اس پر واقع ہوتا ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طویل صحبت کا شرف پایا ہو اور ان سے اخذ کیا ہو۔ یہی جمہور کی رائے ہے جیسا کہ جاحظ اور شیخ ابو عبداللہ ابن رشید ایضاح نے کہا ہے۔‘‘
آمدی رحمہ اللہ نے بھی عمرو بن یحییٰ سے اس قول کی حکایت کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ عمرو بن یحییٰ کوئی اور نہیں بلکہ ’’جاحظ‘‘ ہی ہے جو کہ ائمہ معتزلہ میں سے تھا۔ ثعلب کا اس کے بارے میں قول ہے کہ: ’’إنه غير ثقة ولا مأمون‘‘ شیخ ابو اسحاق ’’اللمع‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اس کے والد کا نام یحییٰ بتایا جاتا ہے جو کہ وہم ہے، اس کا صحیح نام عمرو بن بحر ابو عثمان الجاحظ ہے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں:
’’ذهب عمرو بن يحييٰ إلي أن هذا الاسم (صحابي) إنما يسمي به من طالت صحبته للنبي صلي اللّٰه عليه وسلم و أخذ عنه العلم‘‘
ابن الحاجب رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی ایک قول کسی کی طرف منسوب کئے بغیر بیان کیا ہے، لیکن اس قول میں ’’الأخذ‘‘ کے بجائے ’’الرواية‘‘ ہے۔ علامہ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ قول عمرو بن یحییٰ کے علاوہ میں نے کسی سے منقول نہیں دیکھا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابن الحاجب نے اس قول کو آمدی کے کلام سے ہی اخذ کیا ہے۔‘‘ [2]
5- پانچواں قول
بعض علماء رؤیت کے وقت عاقل و بالغ ہونے کی شرط لگاتے ہیں، چنانچہ واقدی نے بعض اہل علم سے روایت کی ہے کہ: میں نے اہل علم حضرات کو دیکھا ہے، کہتے ہیں کہ:
’’كل من رأي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم وقد أدرك الحلم فأسلم و عقل أمر الدين و رضيه فهو عندنا ممن صحب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ولو ساعة من نهار‘‘
لیکن حافظ زین الدین عراقی اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہما اللہ بلوغت کی قید کو ’’شاذ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اس شرط سے محمود بن الربیع (کہ جن کی عمر پانچ سال تھی) اور ان جیسے بہت سے دوسرے صحابہ، صحابیت کی
[1] الکتاب الجامع مع الجواھر المضیئۃ: 2/411
[2] فتح المغیث للسخاوی: 4/88، فتح المغیث للعراقی: ص 346، الاحکام للآمدی: 2/130، بیان المختصر: 1/714-715، مختصر الوصول والأمل: ص 11، لسان المیزان: 4/355، تدریب الراوی: 2/212