کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 30
ولا خلاف أنهم صحابة‘‘ [1] یہاں امام ابن الصلاح اور امام نووی رحمہما اللہ کا سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی طرف منسوب مذکورہ قول کی صحت پر کلام نہ کر کے صرف اس کے مدلول پر ہی کلام کرنا باعث حیرت ہے مگر علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا اس قول کی توجیہ و تشریح بیان کرنا تو اس سے بھی زیادہ قبیح بات ہے، آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ایک عظیم شرف ہے، پس کسی شخص پر اس کا اطلاق اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ آپ کے ساتھ اس کا اس قدر طویل اجتماع نہ ہوا ہو کہ اس شخص کے خلق پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق کی چھاپ ظاہر ہونے لگے۔ مثال کے طور پر سفر پر مشتمل غزوات میں آپ کے ساتھ شرکت، اور سفر تو خود عذاب کا ایک ٹکڑا ہے، اسی طرح سال کی چاروں فصلوں، کہ جن کا مزاج مختلف ہوتا ہے، میں آپ کے ساتھ مصاحبت۔‘‘ [2] حق بات تو یہ ہے کہ سعید بن المسیب کی طرف اس قول کی نسبت ہی صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کی اسناد میں محمد بن عمر الواقدی قطعاً ناقابل اعتبار بلکہ کذاب راوی ہے۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ اور امام نسائی فرماتے ہیں کہ: ’’حدیث گھڑتا ہے۔‘‘ ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’أحاديثه غير محفوظة والبلاء منه‘‘ ابن المدینی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’واقدی حدیث وضع کرتا ہے‘‘ ابن راھویہ کا قول ہے: کہ ’’میرے نزدیک وہ حدیث گھڑنے والوں میں سے ہے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کذاب ہے، اخبار کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔‘‘ یحییٰ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’ثقہ نہیں ہے‘‘، ایک مرتبہ آں رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ليس بشئ لا يكتب حديثه‘‘ امام دارقطنی فرماتے ہیں: ’’اس میں ضعف ہے۔‘‘ امام بخاری، امام رازی رحمہ اللہ اور امام نسائی رحمہ اللہ نے واقدی کو ’’متروک الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’وكان يروي عن الثقات المقلوبات و عن الإثبات المعضلات حتي ربما سبق إلي القلب أنه كان المتعمد لذلك‘‘ ابن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’واقدی تیس ہزار غریب احادیث روایت کیا کرتا تھا۔ میں اس سے نہ حدیث میں، نہ انساب میں بلکہ کسی بھی چیز میں راضی نہیں ہوں۔‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’سكتوا عنه ما عندي له حرف‘‘، علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے بعض مقامات پر اسے ’’ضعیف‘‘، ’’متروک‘‘ اور ’’ضعیف جدا‘‘ بیان کیا ہے۔ لیکن دراوردی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ’’واقدی حدیث کے معاملہ میں امیر المؤمنین ہے۔‘‘ ابراہیم الحربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الواقدي أمين الناس علي الاسلام، كان أعلم الناس بامر الإسلام‘‘ محمد بن اسحاق الصنعانی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’قسم اللہ کی اگر وہ میرے نزدیک ثقہ نہ ہوتا تو
[1] تقریب النواوی مع تدریب: 2/211-212 [2] تدریب الراوی للسیوطی: 2/212