کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 29
النبي صلي اللّٰه عليه وسلم وإن شئت قلت قد صحبه‘‘[1]– لیکن ان تمام اقوال کی مراد بھی وہی ہے جو کہ اوپر بیان ہو چکی ہے، یعنی عام صحبت کی نفی نہیں بلکہ صرف خصوصی صحبت کی نفی، چنانچہ حافظ عراقی رحمہ اللہ (806ھ) اور حافظ سخاوی رحمہ اللہ، امام ابو زرعہ اور امام ابو داؤد رحمہما اللہ کے ان اقوال کے متعلق فرماتے ہیں: ’’أراد أبو زرعة و أبو داؤد نفي الصحبة الخاصة دون العامة‘‘ [2] یعنی امام ابو زرعہ اور امام ابو داؤد کی مراد خاص صحبت کی نفی تھی نہ کہ عام صحبت کی نفی۔‘‘ 3- تیسرا قول: بعض علماء کا قول ہے کہ صرف وہ شخص صحابی شمار کیا جائے گا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سال دو سال قیام کیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک دو غزوات میں شریک ہوا ہو۔ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس قول کی تخریج حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے بطریق ابن سعد عن الواقدي محمد بن عمر قال اخبرني طلحه بن محمد بن سعيد بن المسيب عن ابيه قال كان سعيد بن المسيب يقول، یوں کی ہے: ’’الصحابة لا نعدهم إلا من أقام مع رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم سنة أو سنتين و غزا معه غزوة أو غزوتين‘‘ [3] حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے سعید بن المسیب کے اس قول کے متعلق ’’وقد روينا عن سعيد المسيب‘‘ لکھ کر گویا اس کو صحت کے ساتھ معلق کیا ہے، لیکن فرماتے ہیں: ’’وكأن المراد بهذا إن صح عنه راجع إلي المحكي عن الأصوليين ولكن في عبارته ضيق يوجب أن لا يعد من الصحابة جرير بن عبداللّٰه البجلي ومن شاركه في فقد ظاهر ما اشترطه فيهم ممن لا نعلم خلافا في عده من الصحابة‘‘ [4] اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ سعید بن المسیب کے زیر بحث قول کے متعلق فرماتے ہیں: ’’فإن صح عنه فضعيف فإن مقتضاه أن لا يعد جرير البجلي و شبهه صحابيا
[1] نفس مصدر: ص 50 [2] فتح المغیث للسخاوی: 4/85-86، فتح المغیث للعراقی: ص 346 [3] الکفایۃ للخطیب: ص 50، فتح المغیث للسخاوی: 4/86، فتح المغیث للعراقی: ص 364، التقیید والإیضاح: ص 257، مقدمۃ ابن الصلاح: ص 251-252، فتح الباری لابن حجر: 7/4، تقریب النواوی مع تدریب: 2/211-212، اسد الغابۃ: 1/18، الارشاد للنووی: 2/477، تلقیح فھوم أھل الأثر : ص 48، الجامع مع الجواھر المضیئۃ للقرشی: 2/412 [4] مقدمۃ ابن الصلاح: ص 256-258، فتح المغیث للعراقی: ص 346، فتح المغیث للسخاوی: 4/86