کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 28
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کوئی باقی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اعراب یعنی بدؤوں میں سے کچھ لوگ بچے ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا مگر جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل تھی ان میں سے باقی نہیں ہے۔‘‘ حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں کہ ’’یہ روایت باسناد جید مروی ہے۔ امام مسلم نے اسے امام ابو زرعہ رحمہ اللہ کی موجودگی میں بیان کیا ہے۔‘‘ [1] مگر حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس کا جواب یہ ہے کہ اس بات سے حضرت انس کی مراد ان اعراب کی محض صحبت نبوی کی نفی فرمانی نہیں بلکہ خصوصی صحبت نبوی کے اثبات کی نفی تھی۔‘‘ [2] اسی طرح امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكان مستند ابن عبدالبر قول أنس لمن سأله أأنت آخر الصحابة: قد بقي قوم من الأعراب فأما من أصحابه فأنا آخرهم ولكن قوله بخصوصه قابل للتاويل بحمله علي صحبه خاصة أو إنه ذكر ما علمه كما يجاب به عن ابن عبدالبر وقد أشرت إلي ذلك في تعريف الصحابي‘‘ [3] محدثین میں سے امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ اور امام ابو داؤد وغیرہما کے کلام میں بھی بعض ایسی چیزیں ملتی ہیں جن سے بظاہر یہ پتہ چلتا ہے کہ آں رحمہما اللہ کے نزدیک صحبت مجرد رؤیت سے اخص تھی چنانچہ طارق بن شہاب کے متعلق ان کا قول مشہور ہے: ’’له رؤية وليست له صحبة‘‘[4]اسی طرح عاصم الاحول سے منقول ہے: ’’قد رأي عبداللّٰه بن سرجس رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم غير أنه لم يكن له صحبة‘‘[5]اور شعبہ رحمہ اللہ سے منقول ہے: ’’كان جندب بن سفيان أتي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و إن شئت قلت له صحبة‘‘[6]اور یعقوب کی روایت میں ہے: ’’قد كان جندب بن عبداللّٰه العلقي أتي
[1] مقدمہ ابن الصلاح: ص 258، فتح المغیث للسخاوی: 4/85، فتح المغیث للعراقی: ص 345، تدریب الراوی: 2/211 [2] فتح المغیث للعراقی: ص 345-346، تدریب الراوی: 2/211 [3] فتح المغیث للسخاوی: 4/135، فتح المغیث للعراقی: ص 345، 346، التقیید والإیضاح: ص 270، علوم الحدیث: ص 270، تلقیح فھوم أھل الاثر لابن الجوزی: ص 228، الطبقات الکبری لابن سعد: 7/25-26، الطبقات للخلیفۃ: ص 91، التاریخ الکبیر للبخاری: 1-2 ص 27-28، التاریخ الصغیر للبخاری: ص 91، 101، 102، المعارف: ص 134، مشاھیر علماء الأمصار: 37، المستدرک للحاکم: 3/573، المعجم الکبیر: 1/222، تاریخ دمشق لابن عساکر: 3/152، 154، 176، 179، 8/833، تہذیب الأسماء: ج 1/ 1 ص 27-28، تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 44-45، العبر ج 1 ص 107-108،سیر اعلام النبلاء: 3/405، 406، 176، 179، 8/833، تہذیب الأسماء: ج 1/ 1 ص 27-28، تذکرۃ الحفاظ ج 1 ص 44-45، العبر ج 1 ص 107-108، سیر اعلام النبلاء: 3/405-406، تہذیب التہذیب: 1/378 [4] فتح المغیث للسخاوی: 4/85، فتح المغیث للعراقی: ص 345، التقید: ص 253 [5] الکفایۃ للخطیب: ص 50، فتح المغیث للسخاوی: 4/85، فتح المغیث للعراقی: ص 345 [6] الکفایۃ للخطیب: ص 50