کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 27
ہے، آپ فرماتے ہیں:
’’وذلك يوجب في حكم اللغة إجراء الصحبة علي من صحب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ولو ساعة من نهار هذا هو الأصل في اشتقاق الاسم ومع ذلك فقد تقرر للأئمة عرف في انهم لا يستعملون هذه التسمية إلا فيمن كثرت صحبته و اتصل لقاؤه ولا يجرون ذلك علي من لقي المرء ساعة و مشي معه خطي و سمع منه حديثا فوجب لذلك أن لا يجري هذا الاسم في عرف الاستعمال إلا علي من هذه حاله‘‘ [1]
علامہ عراقی و سخاوی رحمہما اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’آمدی کا قول ہے: ’’الأشبه أن الصحابي من رآه و حكاه عن أحمد و أكثر صحابنا و اختاره ابن الحاجب أيضا لأن الصحبة تعم القليل والكثير فلو حلف أن لا صحبه حنث بلحظة‘‘ [2]
اگر بغور دیکھا جائے تو طول صحبت اور کثرت مجالست کی یہ شرط کچھ زیادہ معقول نظر نہیں آتی، چنانچہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ بجا طور پر فرماتے ہیں:
’’پھر جو طول صحبت یا کثرت مجالست کے قائل ہیں ان میں سے کسی نے بھی اس طول کو (باضابطہ اور) بقدر معین بیان نہیں کیا ہے جیسا کہ امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ نے صراحت کی ہے، لیکن شارح البزدوی نے ان میں سے بعض علماء سے چھ ماہ کی تحدید نقل کی ہے۔‘‘ [3]
یہاں بعض لوگ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے وہم میں مبتلا ہو سکتے ہیں جسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں عن علی بن محمد عن شعبۃ عن موسٰی السیلانی یوں روایت کیا ہے:
’’قال أتيت أنس بن مالك فقلت هل بقي من أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم أحد غيرك قال بقي ناس من الأعراب قد رأوه فأما من صحبه فلا‘‘ [4]
یعنی ’’میں حضرت انس بن مالک کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ کے علاوہ بھی رسول
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/85، فتح المغیث للعراقی: ص 345، التقیید والإیضاح: ص 256، علوم الحدیث: ص 263، الإرشاد للنووی: 2/477، احکام للآمدی: 2/130، المسودۃ: ص 292، المتصفی للغزالی: 1/165، التمہید لابی الخطاب: 3/173-174
[2] فتح المغیث للسخاوی: 4/78، فتح المغیث للعراقی: ص 345، الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب: ص 51، الاحکام للآمدی: 2/130-131، تلقیح فھوم أھل اثر: ص 48، شرح مسلم للنووی: 1/35-36، الإرشاد للنووی: 2/476، 478، 479، تہذیب الأسماء: 2/1 ص 173-174، بیان المختصر: 1/714-715، علوم الحدیث: ص 263، مقدمۃ أسد الغابۃ: 1/19، صحیح البخاری مع الفتح: 7/3، 5، المسودۃ: ص 292
[3] فتح المغیث للسخاوی: 4/86، المستصفی للغزالی: 1/165، التقریر والتحبیر: 2/261، جامع الأصول: 1/134
[4] اخرجہ ابن عساکر فی تاریخ دمشق: 3/176، و أوردہ المزی فی تہذیب الکمال 3/376