کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 26
اور شارح ’’تقریب النواوی‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ و عن أصحاب الأصول أو بعضهم أنه من طالت مجالسته علي طريق التبع له والأخذ عنه بخلاف من وفد عليه وانصرف بلا مصاحبة ولا متابعة‘‘ [1]
نیز فرماتے ہیں:
’’وقول المصنف ”أو بعضهم“ من زيادته لأن كثيرا منهم موافقون لما تقدم نقله عن أهل الحديث‘‘ [2]
اور شیخ ابو المظفر السمعانی رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول کے متعلق حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن السمعانی رحمہ اللہ نے جو کچھ کہا ہے وہ دو وجوہ کے باعث محل نظر ہے۔ پہلی وجہ تو یہ کہ انہوں نے جو کچھ اہل لغت سے حکایت کی ہے اس پر قاضی ابوبکر بن الباقلانی نے ان کے قول کے برخلاف اہل لغت کا اجماع نقل کیا ہے۔ جسے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ’’الکفایۃ‘‘ میں قاضی الباقلانی سے یوں نقل فرمایا ہے: (پھر آں رحمہ اللہ ’’الکفایۃ‘‘ کی پوری عبارت نقل کرتے ہیں جو کہ اوپر ’’صحابی کی لغوی تعریف‘‘ کے تحت گزر چکی ہے)، دوسری وجہ یہ ہے کہ علامہ سمعانی رحمہ اللہ نے علمائے اصول سے اس کی جو حکایت کی ہے تو یہ اصولیین میں سے صرف بعض ائمہ کا قول ہے جیسا کہ آمدی نے امام احمد وغیرہ سے حکایت کی ہے کہ ’’ان الصحابي من رآه‘‘ یعنی ’’صحابی وہ ہے جس نے آں صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔‘‘ پھر فرماتے ہیں: ’’أنه الأشبه‘‘ اسی چیز کو ابن الحاجب نے بھی پسند کیا ہے (کیونکہ صحبت قلیل و کثیر دونوں کے لئے عام ہے) قاضی ابوبکر نے جو چیز پسند کی اور ائمہ سے نقل کی، وہ یہ ہے کہ حد صحابیت میں کثرت صحبت اور استمرار لقاء کا اعتبار ہو گا۔ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی بعض علماء سے اسی طرح حکایت کی ہے الخ۔‘‘ [3]
اسی طرح امام ابو عبداللہ السخاوی رحمہ اللہ (م 902ھ) بھی فرماتے ہیں:
’’اور ابن السمعانی رحمہ اللہ نے جو علمائے اصول سے اس بات کی حکایت کی ہے تو یہ تمام علمائے اصول کا نہیں بلکہ ان میں سے صرف بعض اصولیین کا طریقہ ہے۔ جمہور اصولیین تو پہلے طریقہ (یعنی محدثین کے طریقہ) کے ہی قائل ہیں، اسی طرح ان کا یہ دعویٰ فرمانا بھی محل نظر ہے کہ ’’یہ تعریف لغوی اعتبار سے ہے‘‘ کیونکہ قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ نے اہل لغت سے بدون اختلاف جو حکایت نقل کی ہے وہ اس دعویٰ کی تردید کرتی
[1] تدریب الراوی: 2/210-211
[2] نفس مصدر: 2/210-211
[3] التقیید والإیضاح: ص 256، فتح المغیث للعراقی: ص 345