کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 25
الأصوليين‘‘ [1]
یعنی ’’ابو المظفر سمعانی مروزی رحمہ اللہ کا یہ قول ہم تک پہنچا ہے کہ اصحاب الحدیث (محدثین) اسم صحابہ کا اطلاق ہر اس شخص پر کرتے ہیں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث یا کلمہ روایت کیا ہو اور اس میں اس قدر وسعت کرتے ہیں کہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نظر دیکھا ہو انہیں بھی صحابہ میں شمار کرتے ہیں۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبہ و مقام کے شرف کے باعث ہے کہ ہر وہ شخص جس نے آپ کو دیکھا ہو اس پر صحبت کا حکم لگایا جائے۔ (پھر علامہ سمعانی رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ اسم ’’صحابی‘‘ لغوی اور ظاہری اعتبار سے اس شخص پر واقع ہوتا ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی صحبت کو طول دیا ہو اور علی طریق التبع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بکثرت مجالست اختیار کی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم دین) اخذ کیا ہو۔ (علامہ سمعانی رحمہ اللہ مزید) فرماتے ہیں کہ یہ علمائے اصول کا طریق ہے۔‘‘
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و ذهب كثير من أهل الفقه والأصول إلي أنه من طالت صحبته له صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [2]
یعنی ’’اہل فقہ اور اصولیین میں سے بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں کہ جو لمبے عرصہ تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو وہ صحابی ہے۔‘‘
اسی طرح ابن فورک رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’هو من أكثر مجالسته و اختص به ولذلك لم يعد الوافدون من الصحابة‘‘ [3]
یعنی ’’صحابی وہ ہے جو بکثرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالست اختیار کرے اور اس کے لئے ہی خاص ہو کر رہے لہٰذا آں صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد کی صورت میں آنے والے اشخاص صحابہ میں شمار نہ ہوں گے۔‘‘
جہاں تک اوپر بیان کئے گئے امام نووی رحمہ اللہ کے قول کا تعلق ہے تو جاننا چاہئے کہ یہاں ’’كثير من أهل اللفقه والأصول‘‘ میں ’’أهل الأصول‘‘ سے مراد ’’اکثر علمائے اصول‘‘ نہیں بلکہ صرف ’’بعض علمائے اصول‘‘ ہیں جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر خود امام نووی رحمہ اللہ اور شیخ عبدالقادر قرشی حنفی رحمہ اللہ وغیرہما بیان کرتے ہیں:
’’و عن أصحاب الأصول أو بعضهم أنه من طالت مجالسته علي طريق التبع‘‘ [4]
[1] مقدمۃ ابن الصلاح: ص 255-256، فتح المغیث للسخاوی: 4/85، فتح المغیث للعراقی: ص 344-345، التقیید والإیضاح: ص 255-256
[2] ما تمس إليه حاجة القاري لصحيح الامام البخاري للنووي: ص 103، شرح مسلم للنووی: 1/36
[3] فتح المغیث للسخاوی: 4/84-85
[4] تقریب للنووی مع تدریب: 2/210، کتاب الجامع مع الجواھر المضیئۃ للقرشی: 2/411