کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 237
چونکہ احادیث نبوی دین کا ماخذ ہیں اور فن جرح و تعدیل انہی احادیث کی صحت روایت کو پرکھنے کی ایک معروف کسوٹی ہے، لہٰذا اگر اس کسوٹی کو ہی کھوٹی قرار دے دیا جائے تو جو چیز بھی اس پر پررکھی جائے گی وہ کیوں کر کھری ہو گی؟ پس جو چیز صد فی صد کھری، شک و شبہ سے بالاتر اور قطعی الثبوت نہ ہو وہ جزو دین کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اس طرز عمل سے تو یک گونہ انکار حدیث لازم آتا ہے، فنعوذ باللّٰه من ذلك
سند کا تیسرا خلاء اور اس کا جائزہ:
جناب اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’سند کی تحقیق میں تیسرا خلاء یہ ہے کہ ہمارے ائمہ نے اہل بدعت، خصوصاً شیعہ اور روافض سے روایات لینے میں بڑی مسامحت برتی ہے۔ یہ لوگ دوسرے معاملات میں تو بڑے بیدار ثابت ہوئے، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں انہوں نے واقعی چشم پوشی سے کام لیا۔ امام مالک علیہ الرحمۃ سے متعلق تو بےشک اس معاملے میں احتیاط منقول ہے لیکن دوسرے تمام ائمہ: امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام ابو حنیفہ، قاضی ابو یوسف، امام مسلم علیہم الرحمۃ وغیرہ کے متعلق صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اہل بدعت سے روایات لینے میں کوئی قباحت نہیں خیال کرتے تھے۔ بس اتنی احتیاط فرماتے تھے کہ ان کے خیال میں وہ اپنی بدعت کا باقاعدہ داعی نہ ہو۔ گویا ان کے نزدیک محض مبتدع سے روایات لینے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ ازروئے قرآن، ازروئے حدیث اور حدیث کے مجموعی مزاج کے تقاضے کے لحاظ سے مجرد اہل بدعت کے گروہ سے ہونا ضعیف کے لئے کافی ہے، اگرچہ راوی اپنی بدعت کا داعی نہ رہا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعیت، رفض، باطنیت اور اس قبیل کے دوسرے مذاہب اصل دین سے انحراف پر قائم ہیں۔ اپنے مذہب کو ثابت کرنے کی خاطر جب تک یہ اصل دین میں جھوٹ نہ بولیں تو اپنا گروہی فریضہ نہیں ادا کرتے۔ انہیں اپنی بدعت کے حق میں دلیل فراہم کرنے کے لئے روایات کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے اور ان کے لئے روایات میں خیانت کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ ان کے مذاہب بہرحال بدعت ہی کے اوپر قائم ہیں، کسی ماثور حقیقت کے اوپر قائم نہیں ہیں۔ سواد امت سے ان فرقوں کا اختلاف کسی ایک آدھ آیت یا چند حدیثوں کی توجیہ میں نہیں ہے، بلکہ بیشتر دین کے مآخذ میں اختلاف ہے، جس سے ان کا مذہب بالکل الگ ہو گیا ہے۔ اب اگر کسی کو ان فرقوں کے ساتھ صلح کل کے فلسفے کو نبھانا اور بھائی چارہ اور دوستی قائم کرنا ہو تو وہ ضرور ایسا کرے، لیکن دین کے معاملے میں اس باطل فلسفے کو راہ نہیں دی جا سکتی۔
ہمارے نزدیک اہل بدعت کی روایات قبول کرنے کی یہ گنجائش فتنوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اور ماضی میں اس کا باعث بنی ہے۔ مجرد کسی کا مبتدع ہونا اس کے ساقط الروایۃ ہونے کے لئے کافی ہے اور ان فرقوں