کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 23
ولو مرة‘‘ [1] یعنی ’’اکثر محدثین کہتے ہیں کہ صحابی نام اس پر واقع ہوتا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ہو اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کیا ہو، خواہ ایک ہی بار ہو۔‘‘ علامہ محمد جمال الدین قاسمی الدمشقی رحمہ اللہ (م 1332ھ) ’’بیان معنی الصحابی‘‘ کے زیر عنوان محی السنہ علامہ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں: ’’هو من لقي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم مؤمنا به ولو ساعة سواء روي عنه أم لا – فقد ورد ما يدل علي إثبات الفضيلة لمن لم يحصل منه إلا مجرد اللقاء القليل والرؤية ولو مرة – ولا الرؤية لأن من كان أعمي مثل ابن أم مكتوم قد وقع الاتفاق علي أنه من الصحابة الخ‘‘ [2] مشہور حنفی عالم شیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی (م 1394ھ) فرماتے ہیں: ’’والصحابي من لقي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم مؤمنا به و مات علي الإسلام ولو تخللت ردة الخ‘‘ [3] اور شیخ عبدالرحمان بن عبیداللہ الرحمانی المبورکفوری فرماتے ہیں: ’’من لقي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم مؤمنا به و مات علي الإسلام ولو تخللت ذلك ردة في الأصح – والمراد باللقي ما هو أعم من المجالسة والمماشاة والجلوس معه صلي اللّٰه عليه وسلم قليلا أو كثيرا الخ‘‘ [4] یعنی ’’صحابی وہ شخص ہے جس نے بحالت ایمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو، خواہ اسلام لانے اور مرنے کے درمیانی وقفہ میں وہ مرتد ہو گیا ہو۔ اور اس ملاقات کا مفہوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجالست، مماشاۃ اور جلوس سے زیادہ عام ہے، خواہ قلیل ہو یا کثیر۔‘‘ 2۔ دوسرا قول: اکثر فقہاء اور بعض علمائے اصول کے نزدیک صحابی وہ شخص ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] کتاب الجامع مع الجواھر المضیئۃ للقرشی: 2/411 [2] قواعد التحدیث للقاسمی: ص 200، حصول المأمول لصدیق حسن: ص 65 [3] قواعد فی علوم الحدیث للتھانوی: ص 48 [4] تحفۃ أھل الفکر فی مصطلح أھل الاثر: ص 27-28