کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 222
نے جو خدمت اپنے ذمہ لی تھی وہ دراصل یہ تھی کہ قابل اعتماد ذرائع سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے متعلق جتنا مواد ان کو بہم پہنچے اسے جمع کر دیں۔ چنانچہ یہ خدمت انہوں نے انجام دے دی۔ اس کے بعد یہ کام اہل درایت کا ہے کہ وہ نفس مضمون پر غور کر کے ان روایات سے کام کی باتیں اخذ کریں۔ اگر اہل روایت خود اپنی اپنی فہم کے مطابق درایت کا کام بھی کرتے اور مضامین پر تنقید کر کے ان ساری روایتوں کو رد کرتے جاتے جن کے مضمون ان کی انفرادی رائے میں مناسب نہ ہوتے، تو ہم اس بہت سے مواد سے محروم رہ جاتے جو مجموعہ احادیث مرتب کرنے والوں کے نزدیک کام کا نہ ہوتا اور دوسرے بہت سے لوگوں کے نزدیک کام کا ہوتا۔ اس لئے یہ عین مناسب تھا کہ اہل روایت نے زیادہ تر تنقید اسناد تک اپنے کاموں کو محدود رکھا اور تنقید مضامین کی خدمت انجام دینے والوں کے لئے معتبر اسناد سے بہم پہنچایا ہوا مواد جمع کر دیا‘‘۔[1] ’’محدثین رحمہم اللہ کی خدمات مسلم، یہ بھی مسلم کہ نقد حدیث کے لئے جو مواد انہوں نے فراہم کیا ہے وہ صدر اول کے اخبار و آثار کی تحقیق میں بہت کارآمد ہے۔ کلام اس میں نہیں بلکہ صرف اس امر میں ہے کہ کلیتاً ان پر اعتماد کرنا کہاں تک درست ہے۔ وہ بہرحال تھے تو انسان ہی۔ انسانی علم کے لئے جو حدیں فطرتاً اللہ نے مقرر کر رکھی ہیں ان سے آگے تو وہ نہیں جا سکتے تھے۔ انسانی کاموں میں جو نقص فطری طور پر رہ جاتا ہے اس سے تو ان کے کام محفوظ نہ تھے۔ پھر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جس کو وہ صحیح قرار دیتے ہیں وہ حقیقت میں بھی صحیح ہے؟ صحت کا کامل یقین تو خود ان کو بھی نہ تھا۔ وہ بھی زیادہ سے زیادہ یہی کہتے تھے کہ اس حدیث کی صحت کا ظن غالب ہے۔ مزید برآں یہ ظن غالب ان کو جس بناء پر حاصل ہوتا تھا وہ بلحاظ روایت تھا نہ کہ بلحاظ درایت۔ ان کا نقطہ نظر زیادہ تر اخباری ہوتا تھا۔ فقہ ان کا اصل موضوع نہ تھا، اس لئے فقیہانہ نقطہ نظر سے احادیث کے متعلق رائے قائم کرنے میں وہ فقہائے مجتہدین کی بہ نسبت کمزور تھے۔ پس ان کے کمالات کا جائزہ اعتراف کرتے ہوئے یہ ماننا پڑے گا کہ احادیث کے متعلق جو کچھ بھی تحقیقات انہوں نے کی ہے اس میں دو طرح کی کمزوریاں موجود ہیں ایک بلحاظ اسناد اور دوسرے بلحاظ تفقہ‘‘۔ [2] ’’اس سلسلہ میں یہ بات بھی جان لینے کی ہے کہ کسی روایت کے سنداً صحیح ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا نفس مضمون بھی ہر لحاظ سے صحیح اور جوں کا توں قابل قبول ہو۔ ہم کو خود اپنی زندگی میں بارہا اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے کہ ایک شخص کی گفتگو کو جب سننے والے دوسروں کے سامنے نقل کرتے ہیں تو صحیح روایت کی کوشش کرنے کے باوجود ان کی نقل میں مختلف قسم کی کوتاہیاں رہ جاتی ہیں۔ مثلاً کسی کو پوری بات یاد نہیں رہتی اور وہ اس کا صرف ایک حصہ نقل کرتا ہے۔ کسی کی سمجھ میں بات اچھی طرح نہیں آتی اس لئے وہ ناقص مفہوم ادا کرتا ہے۔ کوئی دوران گفتگو میں کسی
[1] رسائل و مسائل: 2/38 طبع اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور [2] تفہیمات: 1/356