کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 22
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ اس موضوع پر مزید کچھ بحث ان شاء اللہ آگے ’’تیسرا قول‘‘ کے تحت بھی بیان کی جائے گی۔ یہاں حافظ ابو سعید العلائی رحمہ اللہ وغیرہ کے مذکورہ بالا تمام اقوال کے متعلق شیخ محمود ربیع کا یہ قول نقل کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ:
’’بعض علماء نے تمیز کے شرط صحابیت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق ہر دو اقوال کے مابین یوں جمع و تطبیق پیدا کی ہے کہ تمیز فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل روایت کے لئے شرط ہے۔ ان کی فضیلت اور قرن اول میں ان کے شمار کے لئے تمیز کا ہونا شرط نہیں ہے۔‘‘ [1]
مذکورہ بالا ان تمام بحثوں سے جو چیز ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ: ’’صحابی کی تعریف میں آزاد غلام، مذکر و مؤنث (اور انسان و جنات ہر طرح کے مسلمان) یکساں طور پر شامل ہیں کیونکہ اس کی تعریف میں اصلاً رؤیت کی تعبیر غالب ہے (نہ کہ حریت اور جنس کی تعبیر۔) اسی طرح وہ تمام اشخاص جو بحیثیت مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن اپنی عدم بصارت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت کے شرف سے محروم رہے، مثلاً ابن ام مکتوم وغیرہ تو وہ بھی (فاعل رؤیت کے حکم میں مانے جائیں گے، لہٰذا) بلا تردد و اختلاف صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اسی باعث متعدد محققین نے صحابی کے لئے رؤیت کے بجائے لقاء کو زیادہ معتبر بتایا ہے۔‘‘ [2]
حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و أورد عليه إن كان فاعل الرؤية الرائي الأعمي كابن أم مكتوم و نحوه فهو صحابي بلا خلاف ولا رؤية له‘‘ [3]
حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’العبارة السالمة من الاعتراض أن يقال: الصحابي من لقي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم مسلما ثم مات علي الإسلام‘‘ [4]
یعنی ’’تمام اعتراضات سے محفوظ عبارت یوں کہنا ہے کہ صحابی وہ شخص ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلم کی حیثیت سے ملاقی ہوا، پھر اسلام ہی پر فوت ہوا۔‘‘
علامہ عبدالقادر قرشی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وقال كثير من أصحاب الحديث أنه يقع علي من لقي الرسول و سمع منه شيئا
[1] حاشیہ بر فتح المغیث للعراقی: ص 344
[2] فتح المغیث للسخاوی: 4/78 بتصرف یسیر
[3] تدریب الراوی: 2/209
[4] فتح المغیث للعراقی: ص 343، التقیید والإیضاح: ص 251