کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 19
نہ تھا، البتہ وہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو صحابہ میں داخل سمجھتے ہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ’’التجرید‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ صحابہ میں کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی ان کی اتباع کی ہے۔ دوسرے تمام انبیاء سے ان کے اختصاص کی وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا سے بحیات اٹھا لئے گئے تھے، دوبارہ پھر آپ زمین پر نازل ہوں گے، دجال کو قتل کریں گے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے۔ ان تین وجوہ کی بناء پر آں علیہ السلام کو صحابہ کے زمرہ میں شامل کیا گیا ہے۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک ان انبیاء کو صحابہ میں شامل کرنے کا تعلق ہے کہ جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج آسمانوں میں دیکھا تھا تو جاننا چاہئے کہ وہ سب انبیاء مثلاً حضرات ابراہیم و یوسف و موسیٰ و ہارون علیہم السلام وفات پا چکے ہیں، لہٰذا بلا شک و شبہ ان میں سے کسی پر صحبت نبوی کا اطلاق نہیں ہو سکتا کہ ان پر یہ رؤیت موت کے بعد واقع ہوئی ہے۔ پھر ان انبیاء کا مقام اکبر صحابہ کے رتبہ سے بھی بدرجہا عظیم و اجل ہے۔ جہاں تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان میں دیکھنے کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ آسمان نہ تو تکلیف کا محل ہے اور نہ ہی مکلفین پر جاری احکام کے اثبات کا، لہٰذا جس نے آں صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں میں دیکھا ان کے لئے اسم صحبت ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زمین پر دیکھنا صحیح مسلم کی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے جو اس طرح ہے – اس حدیث سے ظاہر ہے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بیت المقدس میں دیکھا تھا، اور اگر معاملہ ایسا ہو تو ان پر صحبت کے اطلاق میں کوئی مانع نہیں ہو سکتا، کیوں کہ جب آں علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے پیروکار ہوں گے، نہ کہ اپنی سابقہ شریعت کے الخ۔‘‘ اسی طرح بعض مصنفین نے ملائکہ کو بھی صحابہ میں داخل کیا ہے، جس کی بنیاد یہ سوال ہے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتوں کی طرف بھی مبعوث کیا گیا تھا یا نہیں؟ حلیمی رحمہ اللہ ملائکہ کی طرف آں صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث نہ ہونے کی طرف گئے ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’شعب الایمان‘‘ میں اس کی توقیر کی ہے بلکہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ نے ’’أسرار التنزیل‘‘ میں اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ برھان النسفی رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اس چیز کو بیان کیا ہے لیکن اس بارے میں ان دونوں نے نزاع کیا ہے۔ تقی السبکی رحمہ اللہ اس کے مقابل مسلک یعنی ملائکہ کی طرف آں صلی اللہ علیہ وسلم کے مرسل ہونے کو راجح بتاتے ہیں لیکن اس کی شرح و بیان محتاج طوالت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ملائکہ کو اس اصل پر صحابہ میں داخل کرنے کی بناء کی صحت محل نظر ہے جو کہ پوشیدہ نہیں ہے۔‘‘ یہاں جو کچھ آں رحمہ اللہ نے فرمایا، وہ ظاہر ہے لیکن ’’فتح الباری‘‘ میں آں رحمہ اللہ اس کے برخلاف مشار الیہ بناء کی طرف گئے ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنے رسالہ: ’’تزيين الأرائك بإرساله عليه السلام إلي الملائك‘‘ اور اپنی کتاب ’’الحبائك في اخبار الملائك‘‘ میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملائکہ کی طرف