کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 184
آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’ایسا طعن جو طعن مبہم ہو قبول نہ کیا جائے گا جیسا کہ شہادت میں قبول نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح اگر بامر مجتہد فیہ مفسر بھی ان اسباب میں سے کسی سبب سے ہو جو بالاتفاق موجب جرح ہیں لیکن اگر طاعن تعصب کے لئے معروف یا متہم ہو تو اس کی جرح مقبول نہ ہو گی‘‘۔ [1] قاسم بن قطلوبغا فرماتے ہیں: ’’راوی پر جرح نہیں سنی جائے گی الا یہ کہ مفسر ہو اور قادح بھی‘‘۔ [2] علامہ ابن ھمام حنفی کا قول ہے: ’’اکثر فقہاء اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ صرف مبین جرح ہی قابل قبول ہے، تعدیل کے لئے مبین ہونا ضروری نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا بالعکس بھی بیان کیا ہے۔ بعض دونوں میں بیان سبب کو ضرورت بتاتے ہیں اور بعض دونوں میں بیان سبب کو غیر ضروری قرار دیتے ہیں‘‘۔ [3] علامہ امیر کاتب بن امیر غازی قوام الدین اتقانی فرماتے ہیں: ’’إن كان الإنكار من أئمة الحديث فلا يخلوا إما أن يكون الإنكار والطعن مبهما بأن قال مطعون أو مجروح أو مفسرا فإن كان مبهما فلا يكون مقبولا‘‘ [4] عبیداللہ بن مسعود بن تاج الشریعہ کا قول ہے: ’’اگر طعن مجمل ہو تو قبول نہیں کیا جاتا اور اگر مفسر ہو تو وہ تفسیر بھی شرعاً جرح متفق علیہ ہونی چاہیے اور طاعن کا اہل نصیحت میں سے ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ نہ ہو کہ وہ اہل عداوت و عصبیت میں سے ہو۔ ایسی صورت میں یہ جرح مقبول ہے ورنہ نہیں‘‘۔ [5] علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اصولیین میں سے حذاق کے نزدیک جرح مبہم غیر مقبول ہے۔‘‘ [6] محمد بن فراموز رومی المعروف بملا خسرو فرماتے ہیں:
[1] التحقیق شرح المنتخب الحسامی لعبدالعزیز البخاری: ص 169 [2] شرح مختصر المنار لابن قطلوبغا کما فی الرفع والتکمیل: ص 100 [3] تحریر الاصول لابن ھمام: 2/258 [4] التبیین شرح المنتخب الحسامی الأمیر کاتب کما فی الرفع والتکمیل: ص 100 [5] التوضیح شرح التنقیح لعبیداللہ بن مسعود: 2/14 [6] البنایۃ شرح الھدایۃ للعینی: 1/234، 266