کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 177
’’انظروا إلي دجال من الدجاجلة يروي عن اليهود و يقول أعرضوا علي علم مالك‘‘ [1]
یعنی ’’دجالوں میں سے ایک دجال کر دیکھو، خود تو یہودیوں سے (قصص) روایت کرتا ہے اور مالک کے علم سے اعراض کی بابت کہتا ہے‘‘ پس معلوم ہوا کہ اس قول سے امام مالک رحمہ اللہ کا مقصد ان پر کوئی حکم لگانا نہیں بلکہ فقط ذم بیان کرنا تھا۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی متکلم صوفی حارث المحاسبی پر، [2] سفیان الثوری رحمہ اللہ کی ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر، [3] زہری کی اپنے ہم عصر [4] اہل مکہ پر، امام ابن مندہ رحمہ اللہ کی ابو نعیم اصبہانی پر [5]، ابن ابی ذویب رحمہ اللہ کی مالک بن انس رحمہ اللہ پر، عقیلی رحمہ اللہ کی علی بن مدینی رحمہ اللہ پر، حماد بن سلمہ رحمہ اللہ کی شعبہ رحمہ اللہ پر اور امام نسائی رحمہ اللہ کی احمد بن صالح ابی جعفر المصری رحمہ اللہ پر جرح کی طرف کسی ذی علم شخص نے التفات نہیں کیا ہے۔ بلکہ امام نسائی رحمہ اللہ کی احمد بن صالح المصری رحمہ اللہ پر جرح ’’ليس بثقة ولا مأمون‘‘[6]کے متعلق علامہ سخاوی رحمہ اللہ، ابو یعلی الخلیلی سے نقل فرماتے ہیں:
’’اتفق الحفاظ علي أن كلامه فيه تحامل، ولا يقدح كلام أمثاله فيه‘‘ [7]
امام ذہبی رحمہ اللہ تضعیف کے اس قول پر تعلیقاً لکھتے ہیں:
’’آذي النسائي نفسه بكلامه فيه‘‘ [8]
کیونکہ بقول حافظ عراقی رحمہ اللہ:
’’احمد بن صالح المصری، امام، حافظ اور ثقہ تھے۔ ان پر یہ جرح معلق نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ان سے تخریج کی ہے۔ احمد بن صالح المصری نے نسائی پر جفا کی لہٰذا ان سے ان کا دل خراب ہو گیا تھا‘‘۔ [9]
[1] جامع بیان العلم و فضلہ: 2/156، کتاب الثقات لابن حبان: 7/381-385، تاریخ ابی زرعہ: 1/537، تہذیب: 9/42، مقدمۃ عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر لابن سید الناس: 1/10-17، میزان الاعتدال: 3/468-475، تہذیب مختصر السنن لابن قیم: 7/94-95، ضعیف احادیث کی معرفت اور ان کی شرعی حیثیت: ص 44-45، المغازی الاولیٰ و مؤلفوھا للمستشرق ھوروفتش: ص 79 (مترجم)
[2] تعلیق ابی غدہ علی قاعدۃ الجرح والتعدیل للتاج السبکی: ص 65-66
[3] نفس مصدر: ص 62-64
[4] امام زہری رحمہ اللہ کی اپنے ہم عصر علماء اہل مکہ پر یہ جرح بہت مشہور ہے: ’’أنهم ينقضون عري الإسلام وما استثنيٰ منهم أحدا و فيهم من جلة العلماء من لاخفاء بجلالته في الدين‘‘ (جامع بیان العلم و فضلہ: 2/188)
[5] میزان الاعتدال: 1/52، تذکرۃ الحفاظ: 3/1034، 1097، 1198
[6] ھدی الساری: 386، تدریب الراوی: 2/369
[7] ھدی الساری: 386، فتح المغیث للسخاوی: 4/465، طبقات الشافعیہ الکبریٰ للسبکی: 1/186-187، تہذیب: 1/39-42، لسان المیزان: 1/186، میزان الاعتدال: 1/105، التقیید والایضاح: ص 390، تدریب الراوی: 2/369
[8] میزان الاعتدال: 1/103، فتح المغیث للسخاوی: 4/365
[9] التقیید والایضاح للعراقی: 390، فتح المغیث للسخاوی: 4/365