کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 17
دیکھا ہو؟ جیسا کہ شاعر ابو ذؤیب الھذلی کا معاملہ ہے – تو اس کا جواب عزا بن جماعہ کے قول کے مطابق یہ ہے: ’’لا علي مشهور‘‘ لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’إن صح محل نظر والراجح عدم الدخول‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’فإنه له صحبة له‘‘ حافظ عراقی رحمہ اللہ کا قطعی فیصلہ ہے کہ: ’’ليس بصحابي علي المشهور‘‘ حافظ رحمہ اللہ نے اس قسم کی رؤیت سے اثبات صحابیت کی نفی کی ہے، چنانچہ ’’التقييد والإيضاح‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’رؤیت صرف اس وقت معتبر سمجھی جائے گی جب کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیاوی زندگی میں واقع ہوئی ہو۔ اس شرط کی وجہ خود ظاہر ہے، کہ نبوت تو نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی منقطع ہو چکی تھی (فإنه قد انقطعت النبوة بوفاته صلي اللّٰه عليه وسلم)‘‘ – لیکن حافظ علائی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل از تدفین رؤیت اور آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز جنازہ پڑھنے کے شرف کے باعث اگر کسی شخص پر حکم صحبت لگایا جائے تو یہ بعید نہیں ہے، بلکہ آپ کے معاصرین جنہوں نے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا یا جو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں پیدا تو ہوئے لیکن صغیر سن ہی تھے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے، ایسے اشخاص کو جن علماء نے صحابہ میں شمار کیا ہے ان کی بات صحت سے زیادہ قریب تر ہے۔ علامہ بدر الزرکشی رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ہاں حافظ عبدالبر رحمہ اللہ کا ظاہر کلام درست ہے کیونکہ صحبت اس شخص کے لئے ثابت ہے جس نے آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اس کو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت کا شرف حاصل نہ ہوا تھا مگر قبل از تدفین اس نے آپ کا جسد مبارک دیکھ لیا تھا‘‘۔ علامہ بلقینی رحمہ اللہ نے اس پر جزم اختیار کیا ہے کہ وہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت کے حصول شرف کے باعث صحابی شمار کیا جائے گا اگرچہ کہ اس کو آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کا موقع نہ ملا ہو۔ آپ فرماتے ہیں: ’’امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’التجرید‘‘ میں ایسے لوگوں کو صحابہ میں ذکر کیا ہے۔‘‘ لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے زرکشی رحمہ اللہ کے مذکورہ کلام کے برخلاف ایسے افراد کو حد صحابیت میں داخل نہ کرنے کو ترجیح دی ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ آں رحمہ اللہ کا اس بارے میں فیصلہ انتہائی واضح ہے، چنانچہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’الظاهر أنه غير صحابي‘‘ (بظاہر وہ غیر صحابی ہے)۔ آں رحمہ اللہ کا ’’صحابی‘‘ کی تعریف میں ’’قبل انتقاله من الدنيا‘‘ کے الفاظ کا اضافہ فرمانا بھی اسی موقف کا عکاس ہے۔ [1] (ھ) کیا وہ شخص صحابی شمار ہو گا جس کو حالت کفر میں نبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا ہو مگر وہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/83-84 (ملخصا)، فتح المغیث للعراقی: ص 343، الإصابۃ لابن حجر: 1/11-12، فتح الباری لابن حجر: 7/4، التقیید والإیضاح للعراقی: ص 251-252، تدریب الراوی: 2/209