کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 166
’’لہ مکان فی العلم والتاریخ و تاریخہ احتج بہ الأئمۃ و ضعفوہ فی الحدیث‘‘ [1]
یعنی ’’علم اور تاریخ میں اس کا اپنا ایک مقام ہے، ائمہ نے اس کی تاریخ سے احتجاج کیا ہے لیکن حدیث کے بارے میں اس کی تضعیف کی ہے‘‘۔
یا اسی طرح عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے عباد بن کثیر کی دینداری کی تعریف کرتے ہوئے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ان کی تضعیف یوں نقل کی ہے:
’’إن عباد بن کثیر من تعرف حالہ و إذا حدث جاء بأمر عظیم‘‘ [2]
یعنی ’’عباد بن کثیر کا حال تو آپ جانتے ہی ہیں (کہ عبادت و زہد میں بہت آگے ہیں) لیکن جب یہ حدیث بیان کرتے ہیں تو ایک بڑی بات (یعنی جھوٹ) لاتے ہیں‘‘۔
پس جو علماء راویوں پر جرح تو نقل کرتے ہیں لیکن ان کے محاسن کا تذکرہ نہیں کرتے ان کے اقوال سے علم کی راہ میں بہت سے اوھام پیدا ہو جاتے ہیں، چنانچہ لازم ہے کہ جن رواۃ پر جرح نقل کی گئی ہو ان کے متعلق مزید بحث و تحقیق کرنی چاہیے تاکہ قطعی طور پر واضح ہو سکے کہ وہ اقوال جرح واقعتاً درست بھی ہیں یا نہیں۔ علامہ محمد جمال الدین قاسمی نے اس سلسلہ میں ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ آں رحمہ اللہ نے پچیس ایسے رواۃ کے احوال کی جانچ پڑتال کی ہے جن پر شیعیت کا الزام تھا مگر شیخین نے صحیحین میں ان سے احتجاج کیا ہے۔ نتیجتاً آں رحمہ اللہ کو صرف دو ایسے راوی ملے جن کا تذکرہ شیعہ مسلک کی کتب رجال میں موجود تھا، باقی تئیس رواۃ کہ جن کو شیعہ بتایا گیا ہے خود شیعہ حضرات کے نزدیک غیر معروف ہیں‘‘۔[3]
2- اگر جرح محض اختلاف عقائد کی بنا پر ثابت ہو تو مردود ہے۔ کبھی کبھی تو عقیدہ کا اختلاف اور اس بارے میں تعصب انسان کو کذب اور وضع تک لاکھڑا کرتا ہے چنانچہ ہم غلاۃ شیعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اصحاب پر بلا دریغ طعن و تشنیع کرتے ہوئے پاتے ہیں۔
عقائد میں اختلاف کے باعث پیدا ہونے والے تعصب نے بعض ائمہ کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے چنانچہ ان میں سے بعض کو ہم ایک دوسرے پر طعن کرتے ہوئے پاتے ہیں، بلکہ بعض نے تو اس بارے میں مجسم تہمت کو مباح کر لیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’و اعلم أنہ قد وقع من جماعۃ الطعن فی جماعۃ بسبب اختلافھم فی العقائد
[1] المغازی الاولیٰ و مؤلفاھا للمستشرق یوسف ھوروفتش ترجمہ حسین نصار مصطفیٰ الحلبی: ص 99
[2] مقدمہ صحیح مسلم: 1/17، و فتح الملہم: 1/24
[3] قواعد التحدیث للقاسمی: ص 195