کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 16
’’وفي إثباتها له نظر‘‘ یعنی ’’اس کی صحابیت کا اثبات محل نظر ہے۔‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اسی طرح ابن مندہ رحمہ اللہ نے اس شخص کو بھی صحابہ میں شمار کیا ہے جس نے قبل از نبوت آں صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا پھر بعثت کا زمانہ بھی پایا اور اسلام لے آیا لیکن بحالت اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ نہیں دیکھا۔‘‘ حافظ عراقی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’ولم أر من تعرض لذلك‘‘ لیکن بعد نبوت رؤیت معتبر ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم اور عبداللہ کو صحابہ میں شمار کیا جاتا ہے لیکن نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو بچے فوت ہو گئے تھے مثلاً قاسم وغیرہ، ان کو صحابہ میں شمار نہیں کیا جاتا۔[1]
(ج) کیا وہ شخص دائرہ صحابیت میں داخل رہے گا جو اسلام قبول کرنے اور رؤیت حاصل ہونے کے بعد مرتد ہو گیا ہو؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جس شخص نے بحیثیت مومن آں صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر مرتد ہو گیا اور اسلام کی طرف نہ لوٹا حتی کہ اسی حالت میں ارتداد میں مر گیا تو ہرگز وہ صحابی نہیں ہے، اس بات پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر عبداللہ بن جحش (کہ جو ام حبیبہ کا شوہر تھا اور ام حبیبہ کے ساتھ اسلام لایا تھا، پھر حبشہ ہجرت کی اور وہاں جا کر نصرانی ہو گیا اور نصرانیت پر ہی مرا)، ربیعہ بن امیہ، مقیس بن صبابۃ اور عبداللہ بن خطل وغیرہ۔ لیکن جو شخص مرتد ہونے کے بعد پھر اسلام کی طرف لوٹ آئے لیکن اسلام کی طرف لوٹنے کے بعد دوبارہ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیت نہ ہو، تو بھی صحیح اور معتد بات یہ ہے کہ وہ صحابہ میں ہی شمار ہو گا جیسا کہ محدثین نے اشعث بن قیس اور قرہ بن ھبیر وغیرہما کو صحابہ میں شمار کیا ہے اور صحاح و مسانید میں ان کی احادیث کی تخریج کی ہے۔ مشہور ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس سے اپنی بہن کی شادی بھی کی تھی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وهذا التعريف مبني علي الأصح المختار عند المحققين كالبخاري و شيخه أحمد بن حنبل و تبعهما‘‘ لیکن بعض علماء کا خیال ہے کہ وہ صحابی شمار نہ کیا جائے گا کیونکہ ارتداد سے صحبت نبوی اور اس کی فضیلت ساقط ہو گئی۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’انہیں صحابہ میں داخل کرنا محل نظر ہے۔‘‘ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا قول ہے: ’’إن الردة محبطة للعمل‘‘، لیکن اس سے مراد بظاہر صحبت سابقہ کا زائل ہو جانا معلوم ہوتا ہے۔ بقول علامہ عراقی و سیوطی رحمہ اللہ وغیرہما: ’’جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں دوبارہ اسلام کی طرف لوٹ آئے مثلاً عبداللہ بن ابی سرح تو اس کے دخول في الصحبة میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔‘‘
(د) کیا اس شخص کو صحابی شمار کیا جائے گا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے بعد لیکن تدفین سے قبل
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/82 (ملخصا)، فتح المغیث للعراقی: ص 344، الاصابۃ لابن حجر: 1/10، تدریب للسیوطی: 2/209