کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 15
صلي اللّٰه عليه وسلم۔ [1]
اور علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’اختلف في حد الصحابي فالمعروف عند المحدثين أنه كل مسلم رأي رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم كذا قال ابن الصلاح و نقله عن البخاري وغيره‘‘ [2]
یعنی ’’صحابی کی تحدید کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، پس محدثین کے نزدیک معروف بات یہ ہے کہ صحابی ہر وہ مسلم شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، جیسا کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے فرمایا اور امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ سے نقل کیا ہے۔‘‘
اب جب کہ رؤیت ہی مدار صحابیت قرار پائی تو اس ضمن میں پیدا ہونے والے سوالات اور ان کے جوابات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
(الف) کیا اہل کتاب میں سے وہ مومن شخص کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعثت شریفہ سے قبل دیکھا ہو، صحابہ میں داخل ہے؟ مثلاً زید بن عمرو بن نفیل کہ جس کے متعلق حسب روایت امام نسائی رحمہ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’إنه يبعث يوم القيامة أمة وحده‘‘ – تو ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ‘‘ کے مقدمہ میں اس بات کی نفی پر جزم اختیار کیا ہے، حالانکہ ابن مندہ رحمہ اللہ نے اسے صحابہ میں شمار کیا ہے۔ حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اس کے ساتھ تعرض کیا ہو۔ [3]
(ب) کیا صحابیت کے لئے یہ بات شرط ہے کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قبل از بعثت ایمان لا چکا ہو اسے لازماً بعد از بحث بھی آپ کی رؤیت کا شرف حاصل ہو؟ مثال کے طور پر بحیر اراہب وغیرہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام پیش کرنے سے قبل ہی فوت ہو چکے تھے۔ اس بارے میں امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ: ’’یہ محل احتمال ہے۔‘‘ چنانچہ آں رحمہ اللہ نے قبل از بعثت ہونے کے سبب بحیر اراہب کا تذکرہ ’’الإصابۃ‘‘ میں ’’القسم الرابع‘‘ کے تحت کیا ہے جبکہ ورقہ بن نوفل کا ذکر ’’القسم الاول‘‘ کے تحت کرتے ہیں کیونکہ وہ بعد از بعثت لیکن قبل از دعوت اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا، باوجود اس کے آں رحمہ اللہ اس کی صحبت پر جزم اختیار نہیں فرماتے بلکہ لکھتے ہیں:
[1] الکتاب الجامع مع الجواھر المضیئۃ: 2/411
[2] تدریب الراوی: 2/ص 208-209
[3] فتح المغیث للسخاوی: 4/82، فتح المغیث للعراقی: ص 344، التقیید والایضاح للعراقی ص 254، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر: 1/10، تدریب الراوی للسیوطی: 2/209