کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 142
بسر بن عبید سے بسند صحیح مروی ہے کہ فرمایا: ’’میں صرف ایک حدیث کی خاطر شہر شہر کا سفر کیا کرتا تھا‘‘۔ [1] ابو العالیہ سے منقول ہے کہ: ’’ہم بصرہ میں صحابہ کی روایات سنتے تھے مگر جب تک مدینہ طیبہ جا کر خود ان کی زبانی نہ سن لیتے راضی نہ ہوتے تھے‘‘۔ [2] امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكان أصحاب عبداللّٰه يرحلون من الكوفة إلي المدينة فيتعلمون من عمر و يسمعونه منه‘‘ [3] یعنی ’’اصحاب عبداللہ کوفہ سے مدینہ کا سفر کرتے اور عمر رضی اللہ عنہ سے علم حدیث سیکھتے اور ان سے سماع کرتے تھے‘‘۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں: ’’علقمہ اور أسود کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث پہنچی تو انہوں نے اس پر قناعت نہ کی بلکہ وہ سفر پر نکلے اور علی وجہ الاستحباب اس حدیث کو خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا‘‘۔ [4] کبار تابعین میں سے سعید بن المسیب فرمایا کرتے تھے: ’’إني كنت لأسافر مسيرة الأيام والليالي في طلب الحديث الواحد‘‘ [5] یعنی ’’میں ایک ایک حدیث کے لئے کئی کئی دن اور کئی کئی رات کا سفر کیا کرتا تھا‘‘۔ بعض دوسرے لوگوں سے بھی ایسے اقوال منقول ہیں [6] حضرت شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ نے ’’فضل الوضوء والذکر بعدہ‘‘ کے متعلق حدیث کی اسناد کے واسطے سفر کیا تھا۔‘‘ [7] ابراہیم بن ادھم کا قول ہے: ’’إن اللّٰه يدفع عن هذه الأمة البلاء برحلة أصحاب الحديث‘‘ [8]
[1] سنن الدارمی: 1/140 [2] فتح الباری: 1/175، 192، سنن الدارمی: 1/114، الرحلۃ للخطیب: ص 93، الجامع للخطیب: 2/225، الکفایۃ: ص 402، 403، فتح المغیث للسخاوی: 3/280 [3] مناقب الامام احمد لابن الجوزی: ص 203، الجامع للخطیب: 1/123، فتح المغیث للسخاوی: 3/336 [4] فتح المغیث للسخاوی: 3/278، مقدمۃ ابن الصلاح: ص 210، الرحلۃ: ص 28، الجامع للخطیب: 2/224، مسائل الامام احمد لابنہ: ص 439 [5] معرفۃ علوم الحدیث: ص 8، المحدث الفاصل؛ ص 223، جامع بیان العلم: 1/94، الکفایۃ: ص 402، الرحلۃ: ص 118، 125، 127، 144، الجامع للخطیب: 2/226، فتح الباری: 1/175 [6] فتح الباری: 1/175 [7] الرحلۃ فی طلب الحدیث: ص 17 [8] مقدمۃ ابن الصلاح: ص 210، شرف اصحاب الحدیث: 59، الرحلۃ: ص 90، الارشاد للنووی: 2/407، فتح المغیث للسخاوی: 3/279، فتح المغیث للعراقی: ص 297