کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 13
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ وغیرہ نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک تفصیلی قول یوں نقل کیا ہے:
’’امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ عشرہ مبشرہ، مہاجرین اور انصار کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ان سب کے بعد افضل الناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں یہ وہ قرن (زمانہ) ہے کہ جس میں ان کے درمیان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی۔ جس نے آں صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سال یا ایک ماہ یا ایک دن یا ایک ساعت بھی صحبت اٹھائی یا فقط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ ہی لیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہے۔ اس کی صحابیت اس کی صحبت کی مقدار کے مطابق ہی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سابقہ پڑا یا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا، یا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک نظر دیکھ ہی لیا تو باعتبار صحبت وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ادنیٰ درجہ کا ہونے کے باوجود بھی اس زمانہ کے لوگوں سے بہرحال افضل ہے جنہوں نے کہ آں صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا ہے الخ۔‘‘ [1]
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’من صحب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم أو رآه ولو ساعة من نهار فهو من أصحاب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [2]
یعنی ’’جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا خواہ دن کی ایک ساعت ہی ہو تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہے۔‘‘
امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الصحابي من صحب النبي صلي اللّٰه عليه وسلم أو رآه من المسلمين‘‘ [3]
یعنی ’’مسلمانوں میں سے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت پائی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔‘‘
’’صحیح البخاری‘‘ کے مشہور شارح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابی کی تعریف میں اپنے شیخ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کے کلام پر جزم کیا ہے۔‘‘ [4]
جبکہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ صحابی کی تعریف میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے شیوخ میں سے امام علی بن المدینی رحمہ اللہ کے علاوہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی اتباع بھی کی ہے۔ آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’و تبعهما تلميذهما البخاري (فقال به)‘‘ [5]
[1] مناقب الامام احمد لابن الجوزی: ص 161، فتح المغیث للسخاوی: 4/99-100، الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب: ص 51
[2] فتح المغیث للسخاوی: ج 4 ص 77، فتح الباری لابن حجر: ج 7 ص 5 بحوالہ المستخرج لابی القاسم ابن مندہ
[3] صحیح البخاری مع فتح الباری: ج 7 ص 3، الکفایۃ فی علم الروایۃ للخطیب: ص 51، مقدمۃ ابن الصلاح: ص 251
[4] فتح الباری لابن حجر: 7/5
[5] فتح المغیث للسخاوی: 4/77