کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 129
’’بيننا و بين القوم القوائم يعني الإسناد‘‘ [1]
فضل بن دکین رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’إنما هي شهادات و هذا الذي نحن فيه يعني الحديث من أعظم الشهادات‘‘ [2]
ابو غسان زینجابیان کرتے ہیں کہ میں نے بہز بن اسد کو سنا ہے کہ جب ان کے سامنے کسی صحیح سند کا ذکر ہوتا تو فرماتے: ’’هذه شهادات الرجال العدول بعضهم علي بعض‘‘ اور اگر کوئی ایسی سند بیان کی جاتی جس میں کچھ ضعف ہوتا تو فرماتے: ’’هذا فيه عهدة‘‘ [3]
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’مثل الذي يطلب الحديث بلا إسناد كمثل حاطب ليل يحمل حزمة حطب و فيه أفعي وهو لا يدري‘‘ [4]
یعنی ’’بلا سند حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے اس شخص کی سی ہے جو اپنی لکڑیوں کی گھٹڑی اٹھاتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس میں ایک سانپ بھی چھپا بیٹھا ہے‘‘۔
محمد بن اسلم الطوسی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’قرب الإسناد قرب أو قربة إلي اللّٰه عزوجل‘‘[5]علامہ سخاوی رحمہ اللہ اس قول کی توجیہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’فان القرب من الرسل بلا شك قرب إلي اللّٰه‘‘ [6]
ابو علی الجیانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس امت پر خاص عنایت کرتے ہوئے تین ایسی اشیاء عطا فرمائی ہے جو اس سے قبل کسی امت کو نہیں دی گئیں۔ وہ چیزیں یہ ہیں: اسناد، انساب اور اعراب‘‘۔ [7]
[1] مقدمہ صحیح مسلم: 1/88، فتح المغیث للسخاوی: 3/333
[2] الکفایۃ: ص 77
[3] نفس مصدر: ص 77
[4] المدخل للحاکم: ص 2، فتح المغیث للسخاوی: 3/333، شرح المواھب اللدنیۃ للزرقانی: 5/453، فیض القدیر للمناوی: 1/433
[5] الجامع للخطیب: 1/123، مقدمۃ ابن الصلاح: ص 216، الإرشاد للنووی: 2/424، فتح المغیث للعراقی: ص 309، فتح المغیث للسخاوی: 3/335، قواعد التحدیث للقاسمی: ص 202، تدریب الراوی: 2/160
[6] فتح المغیث للسخاوی: 3/335
[7] شرف اصحاب الحدیث: ص 40، فتح المغیث للسخاوی: 3/332، المواھب اللدنیۃ للقسطلانی: 5/455، تدریب الراوی: 2/160، قواعد التحدیث: ص 201