کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 128
کے چند مشہور واقعات نقل کئے جائیں گے جن سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ عہد صحابہ میں سند کی ضرورت و اہمیت کو نہ صرف محسوس کیا جاتا تھا بلکہ اس کی تلاش و جستجو ان کا شعار تھی۔ سند کی اہمیت و عظمت تابعین، تبع تابعین، محدثین اور علماء کی نظر میں: چونکہ آگے ’’صحت حدیث کے لئے اسناد کی تلاش – اسلاف کا منہج ہے‘‘ کے زیر عنوان ان شاء اللہ عہد صحابہ کے بعد تابعین کے دور میں بھی ’سند‘ کی ضرورت و اہمیت اور اس کی تحقیق و تفتیش کے ضمن میں ان کی مساعی کا تذکرہ کیا جائے گا اس لئے یہاں ہم صرف تبع تابعین اور ان کے بعد کے محدثین و علماء کے اقوال نقل کرنے پر اکتفاء کریں گے، چنانچہ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’الإسناد سلاح المؤمن فإذا لم يكن معه سلاح فبأي شيء يقاتل؟‘‘ [1] یعنی ’’اسناد مومن کا ہتھیار ہے، اگر اس کے پاس اس کا ہتھیار ہی نہ ہو تو وہ آخر کس چیز سے جنگ لڑے گا؟‘‘ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’الإسناد من الدين ولو الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘ [2] یعنی ’’اسناد دین کا ایک حصہ ہیں۔ اگر اسناد کا وجود نہ ہوتا تو جو شخص جو بھی چاہتا وہ کہتا‘‘۔ آں رحمہ اللہ کا دوسرا قول ہے: ’’مثل الذي يطلب أمر دينه بلا إسناد كمثل الذي يرتقي السطح بلا سلم‘‘ [3] آں رحمہ اللہ کا ایک اور قول اس طرح ہے:
[1] شرف اصحاب الحدیث للخطیب: ص 42، المدخل للحاکم: ص 3، المجروحین لابن حبان: 1/27، ادب الإملاء والاستملاء: ص 8، طبقات الشافعیہ لابن السبکی: 1/167، فتح المغیث للسخاوی: 3/333، الفہرسۃ لابن خیر: ص 12، تدریب الراوی: 1/160، قواعد التحدیث للقاسمی: ص 202 [2] قواعد التحدیث للقاسمی: 201، مقدمہ صحیح مسلم: ج 1/78، کتاب العلل للترمذی مع تحفۃ الاحوذی: 4/388، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/1 ص 16، المجروحین لابن حبان: 1/26، شرف اصحاب الحدیث للخطیب: ص 41، الکفایۃ للخطیب: ص 393، الجامع للخطیب: 2/213، معرفۃ علوم الحدیث: ص 6، طبقات الشافعیۃ لابن السبکی: 1/187، فتح المغیث للسخاوی: 3/332، التمہید لابن عبدالبر: 1/56، المحدث الفاصل للرامہرمزی: ص 209، الفہرسۃ لابن خیر: ص 12، ادب الإملاء والاستملاء: ص 7، مقدمۃ ابن الصلاح: ص 215، الإلماع: ص 194، تذکرۃ الحفاظ للذھبی: ص 1054، العلو والنزول: ص 44 تدریب الراوی: 2/160، شرح المواھب للزرقانی: 5/453، منھاج السنۃ لابن تیمیہ 4/96، الصارم المنکی فی الرد علی ابن السبکی لابن عبدالھادی: ص 268 [3] شرف اصحاب الحدیث: ص 42، ادب الإملاء والاستملاء: ص 6، الکفایۃ: ص 393، فتح المغیث للسخاوی: 3/332