کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 110
و تعليلهم بأنه ليس بفقيه‘‘ [1] یعنی ’’بعض حنفیہ کا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایات کو رد کرنا معتبر نہیں ہے۔ حنفیہ اس کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فقیہ نہیں تھے‘‘۔ علامہ شیخ محمد معین سندھی حنفی رحمہ اللہ نے حنفیہ کے نزدیک بھی ترجیح بالفقہ کے معتبر ہونے کا انکار کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’سوم: فقہ الرواۃ کو صحت مروی میں کوئی اثر (یعنی دخل) نہیں ہے کیونکہ اس کا مدار تو عدالت و ضبط ہے، جسے سب نے صحت حدیث کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ قلت فقہ وثوق روایت کے ملتزمات اور اس کے شرائط تحمل کے لئے موجب وھن نہیں ہے۔ اگر فقہ الرواۃ کا انکار کیا جائے تو ابن عمر کی حدیث کا علوء سند باقی رہ جاتا ہے جو صحت کے لئے ضروری اور کافی ہے۔ حنفیہ بھی اس بات کا اعتقاد نہیں رکھتے کہ راوی میں قلت فقہ اس کی روایت کے لئے باعث وہن ہے بلکہ وہ تو صحابہ میں سے جو قلیل الفقہ تھے ان کی صرف وہ روایات جو قیاس کے خلاف ہوں ان پر قیاس کو مقدم ٹھہراتے ہیں۔ مگر ایسا کرنا ان کے نزدیک بسبب عدم فقہ راوی صحت روایت پر وہن نہیں ہوتا، بلکہ اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ غیر فقیہ کی مرویات کے مقابلہ میں فقیہ کی مرویات کو باعتبار صحت زیادہ وثوق حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ، کہ جو ان کے نزدیک صحابہ میں سے فقاہت میں قلیل تھے، کی احادیث پر قیاس کو مقدم ٹھہرانے کی جانب گئے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر انہوں نے قلت فقہ کا حکم لگایا ہے، لیکن اس سے تو ان صحابہ پر شدید طعن واقع ہوتا ہے۔ اس قول سے انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نسبت ایک عظیم جسارت کی ہے (طویل کلام کے بعد فرماتے ہیں: ) جب یہ ظاہر ہو گیا کہ فقہ راوی صحت حدیث میں اور غیر فقیہ کی حدیث پر اس کی قوت کے لئے بے اثر ہے، اور یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب جو کثرت و قلت فقہ کے اثر کو بیان کرتے ہیں تو وہ ترجیح المروی کی وجہ سے نہیں بلکہ تقدیم قیاس کی وجہ سے ہے۔ پس اس حکایت میں فقیہ کی روایت کی غیر فقیہ کی روایت پر ترجیح کے قول کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی جانب نسبت امارات اختلاق میں سے ہے‘‘۔ [2] علامہ محمد معین سندھی رحمہ اللہ کے اس مفید کلام کو محدث شہیر علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’مقدمہ تحفۃ الأحوذی‘‘ کی فصل (40) ’’في ذكر بعض الأصول التي ذكرها الحنفية أو غيرهم لرد الأحاديث الصحيحة والكلام عليها‘‘[3]میں مفصلاً اور شیخ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ نے ’’التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی‘‘[4]میں مختصراً نقل کیا ہے، مگر جناب ابو الحسنات عبدالحی لکھنوی، علامہ محمد معین سندھی رحمہ اللہ
[1] فتح المغیث للسخاوی: 4/100 [2] دراسات اللبیت للسندی: 211، الاجوبۃ الفاضلۃ: 215-216 [3] مقدمۃ تحفۃ الاحوذی للمبارکفوری: 162 [4] التعلیقات السلفیۃ: 1/102