کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 11
یعنی ’’اہل لغت کے مابین اس قول کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ’’صحابی‘‘، ’’صحبة‘‘ کے مادہ سے مشتق ہے، یہ صحبت کی کسی خاص مقدار سے مشتق نہیں ہے، بلکہ اس کا اجراء ہر اس شخص پر یکساں ہوتا ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ صحبت اختیار کرے، خواہ اس صحبت کی مدت کم ہو یا زیادہ جس طرح کے اقوال: ’’مکلم‘‘، ’’مخاطب‘‘ اور ’’ضارب‘‘، ’’المكالمة‘‘، ’’المخاطبة‘‘ اور ’’الضرب‘‘ سے مشتق ہیں اور ان کا اجراء ان امور (مکالمہ، مخاطبہ، ضرب) میں واقع ہونے والے پر بلا تمیز قلت و کثرت مقدار کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ افعال سے مشتق ہونے والے تمام دوسرے اسماء کا بھی ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ’’میں نے فلاں کے ساتھ ایک حول (بارہ ماہ) ایک طویل مدت، ایک سال، ایک ماہ، ایک دن، ایک گھنٹہ کی صحبت اختیار کی ہے۔‘‘ پس مصاحبت کا اسم قلیل و کثیر دونوں مصاحبتوں پر یکساں واقع ہوتا ہے، لہٰذا لغت کے حکم میں یہ چیز ہر اس شخص پر اسم ’’صحابی‘‘ کے اجراء کی موجب ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی ہو خواہ اس صحبت کی مدت دن کی ایک ساعت ہی ہو۔ اور یہ چیز ہی اشتقاق الاسم میں اصل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ائمہ (اصول) کے نزدیک یہ بات معروف قرار پا چکی ہے کہ وہ لوگ اس تسمیہ کا استعمال صرف اس شخص ہی پر کرتے ہیں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بکثرت صحبت اٹھائی ہو اور جس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا سلسلہ متصل رہا ہو۔ یہ ائمہ اسم صحابی کا اجراء اس شخص پر نہیں کرتے جو کبھی ایک ساعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقی ہوا ہو یا کچھ دور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سن لی ہو۔ چنانچہ ضروری ہے کہ عرف الاستعمال میں اس اسم (صحابی) کا اجراء نہ کیا جائے مگر اس صورت میں جو اوپر مذکور ہو چکی ہے الخ۔‘‘ اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اصحاب اصول کی رائے نقل کرنے کے بعد گویا ہوتے ہیں: ’’قالوا و ذلك معني الصحابي لغة، ورد بإجماع اللغة علي أنه مشتق من الصحبة لا من قدر منها مخصوص و ذلك يطلق علي كل من صحب غيره قليلا كان أو كثيرا، يقال صحبت فلانا حولا و شهرا و يوما و ساعة‘‘[1]مزید تفصیل کے لئے ’’لسان المیزان‘‘ لجمال الدین محمد بن مکرم بن منظور (ج 1 ص 915)، ’’تاج اللغۃ‘‘ لاسماعیل بن حماد الجوہری (ص 161-162) ’’تاج العروس‘‘ لمحمد مرتضیٰ الزبیدی (ج 3 ص 186)، ’’مختار الصحاح‘‘ لابی بکر الرازی (ص 356) اور ’’المقاموس المحیط‘‘ للفیروز آبادی مجدی بن محمد یعقوب وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ ’’صحابی‘‘ کی اصطلاحی تعریف ’’صحابی کے اصطلاحی معنی کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے۔ عموماً اس بارے میں علماء کے چھ مشہور
[1] تدریب الراوی للسیوطی: 2/210-211