کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 2 - صفحہ 100
المضيئة‘‘) علامہ ابو الحسنات عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: ’’فوائد البهية في طبقات الحنفية میں مذکور ہے کہ امام ابو زرعہ نے حارثی کو ’’ضعیف‘‘ بتایا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’صاحب عجائب و افراد عن الثقات، سكتوا عنه‘‘، ’’لسان المیزان‘‘ میں ہے کہ: ’’خلیلی کا قول ہے کہ استاذ کے لقب سے مشہور تھے اور ان کو اس لقب کے شایان شان معرفت حاصل تھی۔ وہ لین یعنی لچکدار تھے، ان کی تضعیف کی گئی ہے‘‘۔ [1] اور حق یہی ہے کہ حارثی پر ائمہ جرح و تعدیل نے سخت کلام کیا ہے۔ چنانچہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کے حوالہ سے ابو سعید الرواس رحمہ اللہ کا قول اوپر گزر چکا ہے۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’وضاع‘‘ تھا۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’لا يحتج به‘‘، حمزہ السہمی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابو زرعہ احمد بن الحسین الرازی رحمہ اللہ سے حارثی کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا ’’ضعیف ہے‘‘ احمد السلیمانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ: ’’کسی سند کو دوسرے متن کے ساتھ اور کسی متن کو دوسری سند کے ساتھ بیان کر دیتا تھا اور یہ بھی وضع کی ہی ایک قسم ہے‘‘۔ اور ملا طاہر پٹنی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’حدیث گھڑنے کے لئے متہم ہے‘‘۔ حارثی کے تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [2] کے تحت مندرجہ کتب کی طرف رجوع فرمائیں‘‘۔ اس سند کا دوسرا مجروح راوی محمد بن ابراہیم بن زیاد الرازی ہے جس کے متعلق امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دجال، حدیث گھڑتا تھا‘‘ آں رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ ’’متروک‘‘ ہے۔ امام برقانی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’بئس الرجل‘‘ یعنی بہت ہی برا شخص ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اس کی تضعیف فرمائی ہے اور فرماتے ہیں: ’’لو اقتصر علي سماعه‘‘ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے کلام سے بھی اس کا ’’وضاع‘‘ اور ’’سارق الحدیث‘‘ ہونا واضح ہوتا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اس کی ایک روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ: ’’یہ باطل ہے‘‘۔ محمد بن ابراہیم الرازی کے تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [3] کے تحت مذکورہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ اس سند کا تیسرا مجروح راوی سلیمان بن داؤد ابو ایوب المنقری الشاذکونی ہے جس کے متعلق امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں: ’’کچھ بھی نہیں ہے‘‘ ایک اور مرتبہ آں رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’جھوٹ بولتا ہے اور حدیث گھڑتا
[1] حاشیہ بر الجواھر المضئیۃ: 1/290 [2] الکشف الحثیث للحلبی: ص 248، تاریخ بغداد: 10/126، میزان الاعتدال للذھبی: 2/496، الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی: 2/141، مجمع الزوائد للہیثمی: 8/164، المغنی فی الضعفاء للذھبی: 2/546، میزان الاعتدال: 3/448، لسان المیزان لابن حجر: تنزیہ الشریعۃ لابن عراقی: 1/75، قانون الموضوعات والضعفاء للفتنی: ص 274 [3] الضعفاء والمتروکین للدارقطنی نمبر 488، الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 3/38، المغنی فی الضعفاء للذھبی: 2/546، میزان الاعتدال للذھبی: 3/448، لسان المیزان لابن حجر: 5/22، تنزیہ الشریعۃ لابن عراق: 1/99، تاریخ بغداد للخطیب: 1/401، 404، 3/242، 11/306