کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 9
کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1
مصنف: غازی عزیر
پبلیشر: مکتبہ قدوسیہ
ترجمہ:
حرف آغاز
پاک و ہند میں علماء اہل حدیث کی خدمت حدیث اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اہل علم نے ہر دور میں اس کی تحسین کی۔ پاک و ہند سے کتب حدیث کے نہایت مستند متون شائع ہوئے۔ اس خطہ زمین میں کتب حدیث کی نہایت جامع و مانع شروح و حواشی تحریر کیے گئے۔ ان میں جامع ترمذی کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ اور سنن ابو داؤد کی شرح ’’عون المعبود‘‘ خاص طور سے قابل ہیں۔ تنہا نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت حدیث کسی بھی ادارے سے کم نہیں۔ برصغیر کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس کے اہم ترین شہر دہلی میں خاندان ولی اللٰہی کا سرچشمہ فیض جاری ہوا۔ اس مرکز رشد و ہدایت میں حضرت شاہ اسحٰق رحمہ اللہ کے بعد شیخ الکل فی الکل حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی نے صحیح بخاری کا درس دیا۔ آج ہم برصغیر پاک و ہند کے بول و عرض میں علم حدیث کے شیفتگان کے جم غفیر دیکھتے ہیں تو بے اختیار اس مرد درویش کے لیے دعائے خیر زبان پر جاری ہو جاتی ہے کہ جو اصلاً بہار کے رہنے والے تھے لیکن ’’محدث دہلوی‘‘ ان کے اسم گرامی کا لاحقہ بن گیا۔ اللهم اغفرله و ارحمه و عافه وعف عنه
ایک طرف جہاں اس خطہ اراضی میں آسمان ہدایت کے یہ روشن چراغ تھے، وہیں بعض ایسے ضال اور مضل بھی تھے کہ جنہوں نے حدیث رسول کی حجیت کا انکار کیا۔ یہ لوگ خود بھی برباد ہوئے اور اپنے پیروکاروں کو بھی خائب و خاسر کیا۔ ان لوگوں کی بدقسمتی کس قدر عبرت ناک ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی حجیت کے نام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و فرامین کو رد کیا۔ یہ لوگ اہل قرآن کے لقب سے معروف ہوئے لیکن قرآن سے ان کا دور پار کا بھی تعلق نہ تھا۔ وہ شخص کیسے اہل قرآن ہو سکتا ہے جو صاحب قرآن کے اسوہ کو اپنے لیے مشعل راہ نہ سمجھے۔ منکرین حدیث بلکہ صحیح تر لفظوں میں منکرین رسالت کے مختلف گروہ ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف لیکن ان کی قدر مشترک استخفاف حدیث اور استہزاء سنت رسول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرکزی خیال کا اشتراک ہمیں آج پرویز اور امین احسن اصلاحی کے پیروکاروں میں نظر آتا ہے جو ماضی میں عبداللہ چکڑالوی، احمد دین امرتسری، غلام احمد قادیانی وغیرہ کے ہاں ملتا ہے۔
ضرورت اس بات کی محسوس ہو رہی تھی کہ امین احسن اصلاحی کے افکار کا کتاب و سنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔ تاکہ وہ سادہ لوح افراد جو ان کے پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں، انہیں حقیقت حال کی خبر ہو سکے اور عامۃ الناس کو بھی اس فتنے سے آگاہی ہو سکے۔ بلاشبہ مولانا امین احسن اصلاحی کا فہم حدیث ایک فتنہ اور گمراہی ہے۔ ہم علی وجہہ البصیرت سمجھتے ہیں کہ ان کا حضرات محدثین کے افکار و نظریات سے دور پار کا بھی تعلق نہیں اور ان کو اپنا کر سوائے آخرت کی بربادی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ افسوس ان لوگوں کو ان کے علم نے ہی برباد کر دیا۔ یہ لوگ بری طرح تلبیس ابلیس کا شکار ہوئے۔ الحمدللہ ان کے مغالطوں اور علمی گمراہیوں کو ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک فاضل جناب غازی عزیر حفظہ اللہ نے طشت ازبام کیا ہے۔
محترم جناب عارف جاوید محمدی حفظہ اللہ نے اس کتاب کا ایک نسخہ اور CD ہمیں کویت سے ارسال کی اور حکم فرمایا کہ پاکستان میں آپ اس کی اشاعت کریں۔ اللہ رب العزت انہیں اس تعاون پر جزائے خیر عطا فرمائیں۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں اور ان کے لیے دعاگو ہیں کیونکہ پاک و ہند میں علماء اہل حدیث سے ان کے بے لوث اور مخلصانہ علمی تعاون کا یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ چنانچہ کچھ تاخیر کے بعد اب یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ امید ہے اس کا مطالعہ اصلاحی مکتب فکر سے وابستہ افراد کی اصلاح کا سبب بنے گا۔ اللہ رب العزت ہمارے ان کلمہ گو بھائیوں کو ہدایت عطا فرمائے اور انہیں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج حدیث اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ابوبکر قدوسی
جولائی 2009ء