کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 72
گھڑی آنے تک دنیا میں قرآن باقی رہے گا اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعوت بھی باقی رہے گی۔ امت میں سے کوئی بھی فرد کسی عصر اور کسی خطہ میں علماء کے درمیان ان کتب کے موجود ہونے تک اس دعوت کی اجابت سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا الخ۔‘‘ [1] 12۔ اور فرمایا: [إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ][2] ’’مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام پر ہوتے ہیں جس کے لئے مجمع کیا گیا ہے تو جب تک آپ سے اجازت نہ لے لیں نہیں جاتے۔‘‘ اس آیت کے تحت امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’پس اگر اللہ تعالیٰ نے ایمان کے لوازم میں سے اس بات کو لازم قرار دیا ہے کہ اگر لوگ آپ کے ساتھ ہوں تو آپ کی اجازت کے بغیر کسی مسلک و مذہب کو اختیار نہ کریں لہٰذا ایمان کے لوازم میں سے اس بات کا لازمی ہونا زیادہ اولیٰ ہے کہ جب تک آں صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت شامل نہ ہو لوگ کسی کے قول یا مذہب علمی کی طرف التفات نہ کریں اور ظاہر ہے کہ آپ کی اجازت آپ کے ذریعہ آنے والی سنت سے بدلالت ہی معلوم ہو سکتی ہے۔‘‘ [3] 13۔ اور فرمایا: [ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللّٰه يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ][4] ’’اے مؤمنو! تم اللہ اور رسول کی بات کو بجا لایا کرو جب کہ رسول تم کو ایسی چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں حیات نو عطا کرنے والی ہے اور جان لو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور یہ بھی جان لو کہ تم سب کو اسی کے پاس جمع ہونا ہے۔‘‘ علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری محدث رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں: ’’اس آیت میں مومنوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی استجابت کا حکم ہے اور یہ حکم وجوب کے لئے ہے۔ یہاں اللہ اور رسول اللہ کی استجابت کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت میں جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور جن سے روکا گیا ہے ان سب کو قبول کیا جائے اور ان کے مقتضی کے مطابق عمل کیا جائے۔ بےشک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے حاضر و غائب سب لوگوں کو تمسک بالثقلین (یعنی کتاب و سنت) اور ان دونوں اصل کو
[1] مقدمہ تحفۃ الاحوذی، ص: 23 [2] النور: 62 [3] إعلام الموقعین 1/58 [4] الانفال: 24