کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 67
علامہ طیبی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ‘‘ میں فعل کا اعادہ دراصل استقلال الرسول بالطاعۃ کی طرف اشارہ ہے۔ اولی الامر کے متعلق فعل کا اعادہ نہ ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جن کی اطاعت واجب نہیں ہے۔‘‘ [1]
حافظ ابن عبدالبر نے میمون بن مہران (110ھ) سے روایت کی ہے کہ:
’’أن الرد إلي اللّٰه هو الرد إلي كتابه والرد إلي الرسول هو الرد إليه ما كان حيا فإذا مات فالرد إلي سنته‘‘ [2]
’’یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانا اس کی کتاب (قرآن) کی طرف لوٹانا ہے اور رسول کی طرف لوٹانا، اگر وہ زندہ ہوں تو ان کی طرف رجوع کرنا ہے اور اگر وفات پا چکے ہوں تو ان کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔‘‘
امام ابن حزم اندلسی (456ھ) آیت [فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ]کے متعلق فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ یہاں ’’رد‘‘ سے مراد قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی خبر کی طرف رجوع کرنا ہے، کیونکہ تمام امت اس بات پر متفق ہے کہ یہ خطاب ہماری طرف اور روز قیامت تک پیدا ہونے والے تمام جن اور انسانوں سب کی طرف ٹھیک اسی طرح ہے جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے لوگوں اور ان کے بعد آنے والوں کی طرف تھا۔ اگر کوئی ہیجان زدہ یا شر انگیز یہ کہے کہ یہ خطاب (ہم سے نہیں) صرف ان لوگوں سے ہے جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ممکن تھی تو کیا اس کا یہ شغب و ہیجان اللہ عزوجل کے بارے میں بھی ممکن اور درست ہو سکتا ہے؟ دریں حال کہ کسی شخص کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ پس یہ ظن و گمان باطل ہوا، اور ہماری یہ بات درست ہوئی کہ مذکورہ ’’رد‘‘ سے مراد کلام اللہ تعالیٰ یعنی قرآن اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی طرف رجوع کرنا ہے، جو کہ ہم تک جیلاً بعد جیل منقول ہے۔‘‘ [3]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’اس آیت میں بدون أولي الأمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معاملہ کو لوٹانے میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے کہ اس طرح درحقیقت مطاع اللہ تعالیٰ ہی ہے کیوں کہ یہ بات معروف ہے کہ جن دو چیزوں کا ہمیں مکلّف ٹھہرایا گیا ہے وہ قرآن و سنت ہیں۔ پس اللہ کی اطاعت کرو جس کے بارے میں تمہارے لئے قرآن میں نص موجود ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو جس بارے میں انہوں نے تمہارے لئے قرآن سے توضیح فرمائی ہے اور اپنی سنت سے جو
[1] فتح الباری 13/111-112
[2] جامع بیان العلم 2/190
[3] الإحكام في أصول الأحكام، ص: 87