کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 66
صرف اسی بات سے روکتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہوتا ہے۔ اگر آں صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان موجود نہ ہوتا تو ہم کتاب اللہ سے کسی بھی فریضہ مثلاً حج، نماز، زکاۃ اور روزہ کو نہ جان پاتے کہ ان کو کس طرح ادا کرنا ہے۔ حضرت حسن کا قول ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت بنایا اور اس کے ذریعہ مسلمانوں پر حجت قائم کی۔‘‘ جیسا کہ علامہ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ میں ذکر فرمایا ہے۔‘‘ [1] 4۔ اور فرمایا: [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا][2] ’’اے مؤمنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور اپنے اولی الامر (یعنی مسلمانوں کے امور کے نگراں) کی اطاعت کرو پھر اگر کسی چیز کے متعلق باہم جھگڑ بیٹھو تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔ یہی بہتر صورت اور خوش تر نتیجہ والی ہے۔‘‘ علامہ طبری رحمہ اللہ اس آیت کے لفظ ’’وَالرَّسُولِ‘‘ کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں: ’’اگر تم کتاب اللہ میں اس کے علم کی کوئی راہ نہ پاؤ تو اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیات ہوں تو ان کی طرف معاملہ کو لوٹا کر اس کی معرفت حاصل کرو اور اگر وفات پا چکے ہوں تو ان کی سنت سے معرفت اور رہنمائی حاصل کرو۔‘‘ [3] امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّسُولِ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اگر تم جانتے ہو تو (اس کی طرف اس متنازعہ مسئلہ کو لوٹاؤ) لیکن اگر تم نہیں جانتے کہ (اس بارے میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے) تو اگر تم رسول اللہ تک پہنچو تو ان سے دریافت کر لو یا پھر تم میں سے جو کوئی ان تک پہنچے (وہ دریافت کر لے) کیونکہ آپ کے فیصلہ کے بعد یہ فرض ہے کہ تم میں کوئی تنازعہ باقی نہ رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: [وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللّٰه وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ][4] اور جو متنازعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اٹھ کھڑا ہو تو اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پھر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی طرف لوٹایا جائے۔‘‘ [5]
[1] مقدمہ تحفۃ الأحوذی، ص: 22 [2] النساء: 59 [3] تفسیر الطبری 4/150، مقدمہ تحفۃ الأحوذی، ص: 22 [4] الاحزاب: 36 [5] الرسالة للإمام الشافعي، ص: 80