کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 52
اصلاح نے ان کی ناموری اور عز و شرف نیز اس ڈھانچہ کو ہی چیلنج کر دیا ہے جس کی تعمیر پر انہوں نے یا تو اپنی عمر عزیز کی متعدد دہائیاں صرف کر دی ہیں یا پھر محترم فراہی و اصلاحی صاحبان سے اس درجہ عقیدت رکھتے ہیں کہ انہیں ’’امام‘‘ کے سوا کسی دوسرے لقب سے یاد کرنا خلاف ادب تصور کرتے ہیں ’’میزان‘‘ کے صفحات نیز ’’اشراق‘‘ و ’’تدبر‘‘ کے شمارے ہمارے اس دعوی پر شاہد و مؤید ہیں۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ کسی کام کے نہ تو سب ہی لوگ موافق ہوتے ہیں اور نہ سب ہی لوگ مخالف، لہٰذا راقم کو اللہ عزوجل سے امید واثق ہے کہ ان شاء اللہ علمی حلقوں میں راقم کی اس کوشش کو بنظر استحسان دیکھا جائے گا اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ فراہی مکتب فکر سے وابستہ فرزندان اسلام میں سے حق و باطل کے مابین تمیز کر سکنے کی صلاحیت سے متصف طبقہ کی ایک واضح اور قابل لحاظ اکثریت بھی ہماری اس پکار پر ضرور لبیک کہے گی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اس تحریک کا دفاع کرے گی کہ اس میں ہی ہم سب کے لئے دنیا کی عزت اور آخرت کی فلاح و کامرانی کا راز پوشیدہ ہے۔ دبستان فراہی کے انہی اہل دانش و بینش سے اس تحریک اصلاح کی کامیابی کی توقعات وابستہ ہیں اور یہی بیدار مغز طبقہ راقم کی اس پکار کا اصل مخاطب بھی ہے۔ یہاں ایک قابل وضاحت امر یہ ہے کہ راقم نے پیش نظر بحث میں مرتب کتاب جناب ماجد خاور صاحب کی قائم کردہ ابواب کی ترتیب کو برقرار نہیں رکھا ہے بلکہ عنوانات کی اہمیت یا قارئین کرام کی سہولت کے لحاظ سے بعض ابواب کو مقدم اور بعض کو مؤخر کر دیا ہے۔ اس بحث کی ترتیب کے سلسلہ میں جناب صفی الرحمٰن مبارکپوری، حفظہ اللہ تعالیٰ (مساعد باحث، مركز خدمة السنة والسيرة النبوية، الجامعة الاسلامية، المدينة المنورة) نے جو رہنمائی اور علمی معاونت فرمائی اس کے لئے بے حد مشکور ہوں۔ ناسپاسی ہو گی اگر واجب الاحترام بزرگوں میں سے جناب حافظ عبدالرحمٰن مدنی، حافظ صلاح الدین یوسف، عبدالغفار حسن رحمانی، والد محترم محمد امین اثری رحمانی، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری اور ڈاکٹر رضاء اللہ محمد ادریس مبارکپوری وغیرہم کا شکریہ ادا نہ کیا جائے جنہوں نے راقم کو وقت کی اس اہم ضرورت کی طرف متوجہ کیا اور وقتاٍ فوقتاً اپنے قیمتی و مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہے بالخصوص جناب حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ کہ جنہوں نے بحث مکمل ہو جانے کے بعد اپنی شدید علمی مصروفیات کے باوجود اس عریض تر مسودے کو تقریباً ایک سال کے طویل عرصے میں من و عن پڑھا اور اس پر ایک وقیع تقریظ رقم فرمائی جو کہ شامل کتاب ہے، اور اختتام پر برادرم محمد غازی عمیر صاحب اور رفیق محترم جناب تاج محمد جودھپوری صاحب کا بھی مشکور ہوں کہ جنہوں نے اس دوران راقم کو اس بحث کے طویل تر مسودہ کی عکسی نقول فراہم کرنے سے قطعاً بے نیاز رکھا۔ شاید یہ کام ادھورا ہی رہتا اگر راقم کی رفیقہ حیات تسوید کے ان ساڑھے چار سالوں میں اپنی عائلی