کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 51
اگرچہ جناب اصلاحی صاحب جیسے دین پسند اور پختہ کار عالم کے طرز تخاطب میں اس قسم کی ترشی و تلخی کا آنا قطعاً مناسب نہیں ہے، کیونکہ جب معاملہ افہام و تفہیم کا ہو تو یہ چیز اس بارے میں سدراہ ثابت ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو آں موصوف کے ساتھ نشست و برخاست کا موقع ملا ہے وہ آپ کے مزاج کی اس زودرنجی سے بخوبی واقف ہیں، پھر اب تو عمر کا تقاضہ بھی یہی ہے، لہٰذا ہم آنجناب سے تعلق خاطر ہونے کے باعث یہ صدمہ بخوشی برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جہاں تک راقم کو اپنے ذاتی کوائف و طبائع کا علم ہے، اپنی تمام کمزوریوں کے اعتراف کا باوجود بحمداللہ ذہن میں نہ کسی ماخذ کے لئے غلو ہے نہ تعصب، البتہ إحقاق حق و إبطال باطل کے لئے اسلاف نیز ائمہ حدیث کی بے مثال اور درخشاں مساعی کے پیش نظر ان کے تئیں ممنونیت کا احساس ضرور ہے۔ اب اصلاحی صاحب اور ان کے رفقاء کو اختیار ہے کہ اس بحث و تنقید کو راقم کی ’’عصبیت‘‘ سے تعبیر فرمائیں یا اس کو ’’لکیر کا فقیر‘‘ قرار دیں، اس بارے میں راقم کا ذاتی خیال یہ ہے کہ دعوت و اصلاح کے داعیوں کو چاہئے کہ اس طرح کے تیر و نشتر سے کنارہ کشی اختیار کر کے فریق ثانی کی ہر بات کو پوری توجہ اور سنجیدگی کے ساتھ سنیں، ان کے دلائل کا وزن محسوس کریں اور اگر ان پر اپنی فکری اغلاط بدلائل واضح ہو جائیں تو نہایت خوش خلقی اور وسیع القلبی کے ساتھ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کر لیں، اگرچہ یہ اس دارالامتحان کی ایک کڑی آزمائش ہے – لیکن اگر آج ایسا نہ کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کہ عالمی بیداری کے سبب خود ہم دوسروں کے لئے باعث تضحیک و تعجب بن کر رہ جائیں۔ راقم کو قوی امید ہے کہ اگر اس کی اس تنقید کو اپنی رائے میں غلطی کا امکان تسلیم کر کے بنظر اصلاح یا بگرض افہام و تفہیم دیکھا گیا تو ان شاء اللہ یہ بحث حق کو دریافت کر لینے میں کسی نہ کسی حد تک ضرور مددگار ثابت ہو گی۔ راقم کا اپنا مشاہدہ ہے کہ برصغیر میں علمی مذاکرات کے لئے فضا قطعاً سازگار نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ فنی بحث و مباحثہ، علمی تنقیدات اور تجزیوں کو عموماً مخالفت پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہر صاحب علم کسی نہ کسی خاص مکتب فکر کا یا تو خود داعی ہوتا ہے یا پھر اس سے وابستگی کو ہی معاشرہ میں اپنی شناخت کا ایک ذریعہ سمجھتا ہے، لہٰذا کسی علمی تنقید یا تجزیہ پر چراغ پا ہو کر افہام و تفہیم کی بجائے فوراً جدل کی راہ اختیار کرتا ہے اور جو کچھ بھی جوابی کاروائی کے طور پر ممکن ہو اس پر آمادہ ہو جاتا ہے – چونکہ اس بحث کے ذریعہ راقم نے بھی اصول حدیث کے متعلق اصلاحی و فراہی مکتب فکر کے مختلف و مخصوص افکار و نظریات پر علمی تنقید اور ان کے تجزیے کی کوشش کی ہے اور غالباً یہ اس نوعیت کی بلند کی جانے والی پہلی باضابطہ آواز ہے لہٰذا اس اصلاحی کوشش کو اس مکتب فکر سے والہانہ وابستگی رکھنے والے احباب کی دنیا میں مختلف قسم کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بہت ممکن ہے کہ بعض زعماء و عمائدین اس اصلاحی تحریک کے مقابلہ کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، لیکن ہم ایسے لوگوں کو قطعاً معذور سمجھتے ہیں کیونکہ اس تحریک