کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 49
دروس ان کے ذاتی حاصل مطالعہ اور عقلی استحالات و اشکالات سے عبارت ہیں۔ اگر ان دروس پر مفصل نقد و بحث کی جائے تو اس کے لئے کئی ضخیم دفتر درکار ہوں گے۔
اگر کتاب کی طرز نگارش پر غور کیا جائے تو وہ بھی کچھ عجیب نوعیت کی نظر آتی ہے۔ ابتداء موضوع زیر بحث پر آں موصوف اپنی نظریاتی حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن جیسے جیسے بحث آگے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے کلام میں شکوک و شبہات اور مخالفت کی آمیزش بھی غلبہ پاتی جاتی ہے۔ مؤلف کا یہ وہ ذہنی انتشار ہے جو کتاب میں جا بجا نمایاں ہے۔ اس کے باوجود مرتب کتاب جناب ماجد خاور صاحب اس کتاب کی اہل علم طبقہ میں پذیرائی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ملک اور بیرون ملک کے اعلیٰ علمی حلقوں میں ان میں پیش کردہ بلند فکر کو بے حد سراہا گیا۔‘‘ [1]
حالانکہ جہاں تک راقم کے ذاتی علم کا تعلق ہے برصغیر (پاک و ہند) کے مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ کے علاوہ محترم اصلاحی صاحب کی ’’بلند فکر‘‘ تو کجا خود آں موصوف کی شخصیت سے بھی کوئی متعارف نہیں ہے۔ جب راقم نے پیش نظر بحث کی تسوید کے دوران متعدد مقتدر عرب علماء کے سامنے اصلاحی صاحب موصوف اور ان کی افکار کا تذکرہ کیا تو ان سب نے نہ صرف آں محترم کی شخصیت سے قطعاً لاعلمی کا اظہار کیا بلکہ ان کی مخصوص ’’بلند فکر‘‘ کو علم حدیث کے لئے ’’انتہائی خطرناک سازش‘‘ سے تعبیر کیا۔
شاید مرتب کتاب کی نظر میں صرف فراہی، اصلاحی اور مودودی صاحبان سے عقیدت رکھنے والے حضرات ہی ’’اعلیٰ علمی حلقوں‘‘ میں شمار کئے جاتے ہیں، واللہ أعلم۔
ان گزارشات کا مقصد محترم اصلاحی صاحب کی شخصیت اور ان کی اصلاحی مساعی کو ہدف تنقید بنانا نہیں ہے بلکہ اسلاف امت اور محدثین کرام کے مسلک کی وضاحت نیز ان کی بے نظیر علمی خدمات پر روشنی ڈالنا ہے تاکہ ان کی عام روش، جسے سبیل المؤمنین بھی کہا جا سکتا ہے، سے محترم اصلاحی صاحب کے ارشادات کا بعد خود بخود واضح ہو سکے اور ان کے مخصوص انداز فکر کے باعث علم حدیث کے متعلق پیدا ہونے والے شکوک و شبہات، تاویلات، مغالطوں اور مضر اثرات کی نشاندہی نیز ان کا سیر حاصل تجزیہ اور مؤثر ازالہ بھی ممکن ہو سکے۔ اللہ عزوجل گواہ ہے کہ راقم کے دل میں محترم اصلاحی صاحب کے لئے پورا احترام موجود ہے، لیکن جب معاملہ تحفظ دین کا ہو تو کسی فرد کے احترام و بزرگی کا لحاظ کرنے کی بجائے راقم کا موقف یہ ہوتا ہے کہ ’’هذا الرجل كبير ولكن الحق أكبر منه‘‘ – لہٰذا راقم کی اس نقد و بحث کو معاندانہ یا فریق ثانی کو بہرصورت غلط ثابت کرنے کی غیر محمود کوشش سمجھنے کی بجائے سنت رسول کے ساتھ محبت، خلوص نیت، نصح و خیرخواہی، اللہ عزوجل کی رضا جوئی اور احقاق حق کے جذبہ پر محمول کرنا چاہئے۔
[1] پیش لفظ مبادئ تدبر حدیث، ص: 12