کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 48
کے خلاف پڑتی ہیں۔ بعض جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آں محترم جس چیز کو نہیں جانتے اسے بحکم قرآن دوسرے جاننے والوں (اہل الذکر) سے پوچھنے کی بجائے خود عالم بن کر فیصلے صادر کرنے لگتے ہیں، چنانچہ زیر مطالعہ کتاب میں قارئین دیکھیں گے کہ ان کے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات، شکوک و شبہات کا جواب اپنے محدود علم اور اپنی مخصوص فکر کے مطابق دیا گیا ہے اور اس کے لئے جابجا نصوص کو کھینچ تان کر اپنے مطلوبہ معانی پہنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر آں موصوف صدیوں سے شائع اور مسلمہ اصولوں پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کا کوئی بھی اعتراض ایسا نہیں ہے جس کو بدلائل رد نہ کیا جا سکتا ہو، جیسا کہ قارئین کرام اصل بحث کے دوران ملاحظہ کریں گے۔ کہیں آں موصوف پہلے کچھ نظریات قائم کرتے ہیں پھر قرآن و سنت سے ان کے حق میں دلائل ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ قرآن و سنت سے جو تعلیم ملے اسی کے مطابق نظریات قائم کئے جائیں۔ بعض اوقات قرآن و سنت سے کسی مسئلہ کا استنباط کرتے وقت سلف صالحین، مفسرین و مجتہدین، محدثین اور اصولیین سب کی تشریحات کو سرے سے نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان سب سے جدا ایک الگ رائے اختیار کرتے ہیں اور اس پر طرفہ یہ کہ جس مسئلہ میں اپنی منفرد رائے ظاہر کرتے ہیں اس میں آپ کے دلائل بہت زیادہ قوی نہیں ہوتے۔ اگر آں موصوف نے ان باتوں کو ملحوظ رکھا ہوتا تو یقیناً زیر تبصرہ کتاب اس طرح کی غلطیوں سے پاک ہوتی۔ چونکہ ان خامیوں کے علاوہ کتاب میں کسی اصلاحی نکتہ کی کوئی جامع تصویر بھی پیش نہیں کی گئی ہے لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ واقعی حدیث کا کوئی طالب علم کسی بھی طور پر اس سے مستفید ہو سکتا ہے، بلکہ علی وجہ البصیرت میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہماری نئی نسل کی فکری غذا یہی یا اس جیسی دوسری تحریریں رہیں تو اس کا جو انجام ہو گا اس کا اندازہ قارئین کرام خود کر سکتے ہیں – محترم اصلاحی صاحب کے ساتھ راقم کو جو حسن ظن قائم ہے، اس کی روشنی میں راقم بہ آسانی یہ کہہ سکتا ہے کہ شاید آں موصوف کو بھی اس کتاب کے مندرجات کے متعلق پوری طرح شرح صدر حاصل نہ ہو، واللہ أعلم۔ جہاں تک ان کے صحیح مسلم، مؤطا امام مالک اور صحیح بخاری کو سمجھنے اور ان کا درس دینے کا تعلق ہے تو جان لینا چاہیے کہ ’’پورے ذخیرہ حدیث کی چھان بین‘‘ کے نام پر اصلاحی صاحب موصوف نے ان کتب کو کسی استاذ کی رہنمائی کے بجائے خود اپنے ہی اختیار کردہ چند اصول تدبر کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ جن مقامات پر آں موصوف کو مشکلات پیش آئی ہیں وہاں حل مشکلات کے لئے ’’مشکل الآثار‘‘، ’’تاویل مختلف الحدیث‘‘ اور ’’اعلام الموقعین‘‘ وغیرہ جیسی معروف کتب کی طرف رجوع نہیں کیا گیا ہے۔ راقم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ آں محترم کے بیشتر