کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 46
پس اصلاحی صاحب کو علامہ مبارکپوری کی ’’افکار و آراء‘‘ کا عکاس یا ترجمان سمجھنا ایک فحش غلطی ہے۔ آں موصوف نے علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ سے ’’حدیث سمجھنے کا سلیقہ‘‘ سیکھنے کی آرزو تو ضرور کی تھی، جیسا کہ خود آں موصوف نے ’’دیباچہ‘‘ میں بیان کیا ہے، لیکن ’’بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ کے مصداق یہ آرزو بھی پوری نہ ہو سکی۔ شاید شخصی ذوق کے علاوہ اس کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ اصلاحی صاحب کو، قوی شہادتوں کے بموجب، علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ کے فیض صحبت سے مستفید ہونے کا بہت ہی کم موقع ملا تھا، واللہ أعلم۔ آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب اپنے منہج تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’—جو لوگ صرف اپنے فقہی مسلک ہی کی حدیثیں پڑھنے پڑھانے پر قانع ہیں ان کا کام بہت سہل ہوتا ہے۔ ممکن ہے وہ ان اصولوں کی قدروقیمت کا اندازہ نہ کر سکیں، بلکہ اندیشہ ہے کہ وہ ان سے متوحش ہوں۔ لیکن جن کو پورے ذخیرہ حدیث کی چھان بین کرنی اور اس کو دین کے ماخذ کی حیثیت سے تمام خلق کے سامنے پیش بھی کرنا ہو ان کے ہاتھوں میں ایک ایسی کسوٹی کا ہونا ضروری ہے جس کو ایک کسوٹی تسلیم کرنے سے کوئی صاحب انصاف انکار نہ کر سکے۔ میں نے اسی خدمت کے لئے یہ مقدمہ لکھا ہے اور انہی اصولوں کی روشنی میں امہات حدیث کا مطالعہ کیا اور ان کا درس دیا ہے۔ اب میری کوشش یہ ہے کہ اس کے نتائج دوسرے قدر دانوں کے سامنے بھی آئیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ خواہش کس حد تک پوری ہو گی، لیکن مجھے اطمینان ہے کہ میری یہ کوشش حدیث کی خدمت کے لئے ہے اور ان شاء اللہ میں اس کے اجر سے محروم نہیں رہوں گا۔‘‘ [1] ہو سکتا ہے کہ جناب اصلاحی صاحب اور ان کے بعض ہم فکر و ’’قدر دان‘‘ ہمیں ’’غیر عاقل‘‘ یا ایسا شخص قرار دیں جو ’’صرف اپنے فقہی مسلک ہی کی حدیثیں پڑھنے پڑھانے پر قانع ہیں‘‘ یا یہ سمجھیں کہ ہمیں ان ’’اصولوں کی قدر و قیمت کا اندازہ‘‘ نہیں ہے یا ہم ’’ان سے متوحش‘‘ ہیں – اگر وہ ایسا کریں بھی تو ہمیں ان سے کوئی گلہ اور شکوہ نہیں۔ کیونکہ ہماری نظر بتمام و کمال ان اصولوں کے چند ظاہری فوائد کے ساتھ ان میں پوشیدہ تمام ضرر رساں پہلوؤں اور ان کے دور رس نتائج پر بھی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی کبھی ان چیزوں کو اتنی اہمیت اور وقعت نہیں دی تھی جتنی کہ محترم اصلاحی صاحب دینا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ وہ ائمہ فن تھے جنہوں نے اصلاحی صاحب موصوف کی طرح صرف چند ماہ اپنے استاذ سے علم حدیث حاصل نہیں کیا تھا بلکہ اپنی پوری پوری عمریں اسی دشت کی سیاحی میں گزاری تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے، کہ جناب اصلاحی صاحب یا تو ان ائمہ حدیث کے قائم کردہ اصول اور ان کی ناقابل فراموش دینی خدمات کی ’’قدروقیمت‘‘ کا صحیح اندازہ نہیں کر پائے ہیں یا پھر ان چیزوں کو اپنی فکر و منشاء کے
[1] دیباچہ مبادئ تدبر حدیث، ص: 17