کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 45
کئے تھے۔ ان اصولوں میں اصل اہمیت لغت کے تتبع، نظائر قرآنی کی تلاش، آیات کے سیاق و سباق اور سورتوں کے نظم کو دی گئی ہے۔
تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ مکمل 9 جلدوں میں شائع ہو چکی ہے مگر اسے صد فی صد حمید الدین فراہی صاحب کے افکار کی ترجمان تفسیر قرار دینا بعید از انصاف ہو گا کیونکہ محترم اصلاحی صاحب نے اپنی اس تفسیر میں اپنے استاذ و مرشد کی بہت سی آراء سے اختلاف بھی کیا ہے۔
حدیث کے متعلق جناب اصلاحی صاحب کی زیر تبصرہ کتاب ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ اور ان کے وہ دروس جو مؤطا امام مالک، صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی منتخب احادیث کی شرح میں ماہنامہ ’’اشراق‘‘ لاہور یا رسالہ ’’تدبر‘‘ لاہور میں شائع ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں، ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آں موصوف نے بزعم خود ان احادیث کی مشکلات کو حل کرنے کی راہ بھی ٹھیک اسی طرز پر ہموار کی ہے جس طرح کہ آں موصوف نے قرآن مجید کے معاملہ میں اپنی تفسیر میں کی ہے۔ نقد حدیث کے ضمن میں بہت سے مقامات پر اصلاحی صاحب کے نظریات اور فراہی و مودودی صاحبان کے افکار و نظریات میں حیرت انگیز حد تک ہم آہنگی و یکسانیت پائی جاتی ہے جیسا کہ آگے مختلف ابواب کے تحت قارئین کرام مشاہدہ کریں گے – ان چیزوں کو دیکھ کر ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کہ حمید الدین فراہی اور سید ابو الاعلی مودودی صاحبان کے مخصوص مناہج تحقیق نے اصلاحی صاحب کے ذہن و شعور پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ شاید یہ آں موصوف کی ان حضرات کے ساتھ طویل رفاقت کا ہی نتیجہ ہو – بہرحال یہ بات تو قطعی طور پر طے شدہ ہے کہ اصلاحی صاحب کے افکار و نظریات اور ان کے استاذ حدیث علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ کے محدثانہ افکار و نظریات میں زمین و آسمان کا بعد پایا جاتا ہے، چنانچہ جاوید احمد غامدی صاحب، محترم اصلاحی صاحب سے ناقل ہیں:
’’—اسی طرح میں نے کسی لفظ کی قرأت کی تو انہوں نے ٹوکا اور دوسری طرح پڑھنے کے لئے کہا۔ میں نے عرض کیا کہ قاعدے کی رو سے تو اس طرح بھی ٹھیک ہے جس طرح میں نے پڑھا ہے۔ فرمایا: نعم، ولكن هكذا سمعت، چنانچہ میں چونکہ اس بات سے واقف تھا کہ ان حضرات کے ہاں اصل چیز سماع ہی ہے، اس وجہ سے میں نے بڑے اہتمام کے ساتھ حاشئیے میں لکھ لیا کہ: ’’قرأ الأستاذ هكذا وقال: هكذا سمعت‘‘
درس کے دوران میں بارہا یہ بھی ہوا کہ میں نے کسی حدیث کے بارے میں عرض کیا: يا أستاذ أي شئ هذا، ما فهمت هذا الحديث، يخالف العقل، يخالف القرآن وہ فرماتے: راجع السند، میں عرض کرتا: السند ما به بأس: فوراً کہتے: استأنف، چنانچہ یہ بات مجھ پر بالکل واضح ہو گئی کہ ان حضرات کے نزدیک اصل اہمیت سند ہی کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اس فن میں کسی چیز کو وہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔‘‘ [1]
[1] ماہنامہ ’’إشراق‘‘ ج 2 عدد 10، ص: 51 مجریہ ماہ اکتوبر 1990ء