کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 42
تک حرف مطلب کا تعلق ہے، وہ اس میں بحمداللہ محفوظ ہے اور اصل چیز دیکھنے کی یہی ہے۔ نوک پلک ایک ضمنی شیء ہے۔ اس کو زیادہ اہمیت نہ دیجئے۔‘‘ [1]
ان چیزوں کو یہاں بیان کر دینے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ آگے چل کر جب اصل کتاب کے مباحث پر تفصیلی گفتگو کی جائے تو کسی چیز کو مرتب کتاب کی خطا پر محمول نہ کیا جائے، بلکہ اس کی ہر چیز کو جناب اصلاحی صاحب کے نظریات سے وابستہ ہی سمجھا جائے۔
اس کتاب کے موضوع کا تعارف اور مقصد بیان کرتے ہوئے مرتب کتاب لکھتے ہیں:
’’ – فہم دین کے لئے تدبر قرآن کے ساتھ ساتھ تدبر حدیث ازبس ضروری ہے۔ ہمارے اسلاف نے اس کے اصول و مبادئ قائم کئے ہیں۔ ہمارے لئے ان کا ادراک و ممارست لابدی ہیں۔ اس فن کو ان کے قائم کردہ اصولوں اور مزید فطری اصولوں کی رہنمائی میں مزید ترقی دی جا سکتی ہے۔ عصر جدید میں حضرت الاستاذ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی مدظلہ العالی نے اس عظیم علمی تحریک کو آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے اور یوں تدبر قرآن کے بعد تدبر حدیث کا یہ اعزاز بھی اللہ تعالیٰ نے فکر فراہی و اصلاحی کے نصیب میں لکھ دیا ہے۔‘‘ [2]
ان سطور کا لب لباب یہ ہے کہ ائمہ حدیث نے نقد حدیث کے سلسلہ میں جو محنت و مشقت برداشت کی اور احادیث کی صحت و ضعف، حسن و قبح، اتصال و انقطاع، شذوذ و نکارت، ارسال و وضع اور معلول و مقبول وغیرہ کے متعلق جو عرفی، لغوی اور عقلی فیصلے صادر کئے اور اس ضمن میں جو باوقار اصول و ضوابط مقرر فرمائے، مرتب کتاب کی نظر میں فہم دین کے لئے ان کی ممارست اگرچہ ضروری ہے لیکن کسی روایت کو قول رسول ثابت کرنے کے لئے وہ اصول و مبادئ پوری طرح کفایت نہیں کرتے، بنیادی طور پر وہ اصول یا تو ناقص ہیں یا پھر ان میں کچھ فطری خلاء اور کمزور پہلو ضرور رہ گئے ہیں ورنہ اس فن کو ’’مزید اصولوں کی فطری رہنمائی میں مزید ترقی‘‘ دینا کیوں کر ممکن ہوتا؟
یہاں مرتب کتاب کے کلام سے منطقی طور پر جو مطلب ہم نے اخذ کیا ہے اگر اسے درست مانا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ صدیوں سے جن اصولوں کو تمام ائمہ فن اور جمہور اہل علم حضرات کے نزدیک مسلم، معروف، مروج اور قطعاً قابل اعتماد سمجھا جاتا رہا ہے وہ ’’فطری اصولوں‘‘ کی عدم رہنمائی کے باعث اس درجہ توجہ، اعتماد اور یقین کے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ چونکہ ان اصول ومبادئ میں نقص موجود ہے لہٰذا اگر صرف ان اصولوں پر ہی تکیہ کیا جائے تو کبھی کسی حدیث کی تحقیق کے سلسلہ میں پوری طرح اطمینان اور شرح صدر حاصل نہیں ہو پائے گا، بالفاظ دیگر آج تک اس سلسلہ میں کی گئی محدثین کی تمام کوششوں سے احادیث کی تحقیق و تنقیح کا حق کماحقہ، ادا نہ ہو سکا ہے، فإنا لله و إنا اليه راجعون
[1] دیباچہ مبادئ تدبر حدیث، ص: 16
[2] پیش لفظ مبادئ تدبر حدیث، ص: 11