کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 32
شروع کر دیتا ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب کی یہ دو رخی یا دو رنگی ؎
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے
کی آئینہ دار ہے۔ بہرحال غازی صاحب نے مولانا اصلاحی کے اس پہلو اور دو رخی کو بھی جگہ جگہ نمایاں کیا ہے۔
تیسرے، مولانا اصلاحی صاحب ہی کی طرح جو دوسرے بعض ہم عصر اہل قلم ایسے ہیں جو معروف معنوں میں تو منکرین حدیث نہیں ہیں۔ لیکن وہ بھی مسٹروں میں ملا اور ملاؤں میں مسٹر بننے کے مرض یا زعم میں مبتلا ہونے کی وجہ سے بعض احادیث کا انکار اور محدثین کی کاوشوں کا استخفاف کرتے ہیں، جیسے مولانا مودودی، مولانا حبیب الرحمٰن کاندھلوی، جاوید احمد غامدی وغیرہم ہیں، فاضل مصنف نے حسب ضرورت و اقتضاء ان کی تحریروں کے اقتباسات بھی پیش کئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا اصلاحی ان کے ہم نوا یا ان سے متأثر ہے۔ اس سے گمراہی کا سلسلہ نسب سامنے آ جاتا ہے۔
چوتھے، فاضل مصنف نے مقلدین جامدین کے رویے پر بھی خاصی وضاحت سے روشنی ڈالی ہے اور ان کے ان اصولوں کا بھی جائزہ لیا ہے جو ان کے ہاں مسلم ہیں اور جن سے انکار حدیث کا جواز یا اس کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ کتاب کا یہ حصہ بھی بڑا اہم اور فاضل مصنف کی محنت، تحقیق اور بالغ نظری کا مظہر ہے۔ اس کے مطالعہ سے اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ حدیث کے انکار اور اس کے استخفاف کا مسئلہ، عہد حاضر کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ اس کی جڑیں تقلیدی جمود میں پیوستہ ہیں اور اس شجر زقوم کو تقلیدی ذہن و فضا اور اس کے اصولوں نے ہی پروان چڑھایا ہے۔
بہرحال یہ کتاب محدثین کی فکر اور ان کی جہود و مساعی کی حمایت و مدافعت میں ایک بے نظیر اور لاجواب کتاب ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ حدیث کی حفاظت کے لئے محدثین نے نقد و جرح کے جو اصول وضع کئے اور اس کے غث و سمین کی پہچان کے لئے جو معیار اور کسوٹیاں فراہم کی ہیں، وہ احادیث کی پرکھ اور تحقیق کے لئے کافی ہیں۔ اب ان سے ہٹ کر جو شخص بھی تحقیق حدیث کے لئے نئے اصول اور معیار پیش کرتا ہے، وہ جہاں ایک طرف محدثین کی بے مثال کاوشوں کا استخفاف کرتا ہے جو اگرچہ انسانی کوششیں ہیں لیکن وہ اللہ کی تکوینی مشئیت کا ایک حصہ معلوم ہوتی ہیں اور اللہ کی مشئیت سے ٹکرانا اصحاب الفیل جیسے انجام سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف وہ انکار حدیث کا دروازہ کھول کر ایک جرم عظیم کا مرتکب ہوتا ہے۔
9۔ غازی عزیر صاحب نے اس کتاب کو لکھ کر اپنے علمی خاندان اور اکابر کی اس روایت کو آگے بڑھایا ہے جو تقریباً ایک صدی سے اس خاندان میں چلی آ رہی ہے۔ یہ روایت ہے حدیث کی تدریس و تعلیم، اس کی تبیین و تشریح اور اس کی نشر و اشاعت اور حفاظت کی۔ ان کے جد محترم مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’تحقیق الکلام‘‘ اور ’’تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی‘‘ جیسی کتابیں لکھیں، مولانا عبدالسلام مبارکپوری رحمہ اللہ نے ’’سیرت البخاری‘‘