کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 31
8۔ فاضل مصنف حفظہ اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مبحث سے پہلے مثبت طور پر اس کے بارے میں صحیح نقطہ نظر تحریر فرماتے ہیں جس سے قاری کے سامنے ہر بحث کا صحیح پہلو اور رخ واضح ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں جو الجھاؤ، یا شبہ معترض کی طرف سے پیش کیا جاتا یا جو مغالطہ دیا جاتا ہے، مصنف اسے بیان کر کے اس کے الجھاؤ، شبہے اور مغالطے کا ازالہ فرماتے ہیں۔ اس سے اگرچہ کتاب کی ضخامت کئی گنا بڑھ گئی ہے، تاہم اس کا فائدہ یہ ہے کہ قاری کا ذہن چونکہ پہلے صحیح موقف سے آگاہ ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے وہ مغالطات کی تکنک اور اس میں مخفی زہر ناکی کو بھی جلدی سمجھ لیتا ہے۔ مثلاً احادیث آحاد کو نظر انداز کرنے کے لئے مولانا اصلاحی صاحب کی فلسفہ طرازی اور مغالطہ انگیزی سے پہلے فاضل مصنف نے حدیث آحاد کی اہمیت اور اس کے بارے میں محدثین کا نقطہ نظر پوری تفصیل سے پیش کیا ہے اور اس کے بعد اس کو رد کرنے کی مذموم مساعی کا جائزہ لیا ہے۔ وھلم جرا۔ سارے مباحث میں فاضل مصنف کا یہی انداز ہے۔ اس کے لئے فاضل مصنف کو بھی یقیناً زیادہ محنت کرنی پڑی ہے۔ لیکن انہوں نے محنت اور تحقیق کا حق ادا کر کے ہر موضوع اور مبحث کو نبھایا ہے، اس کے زلف و گیسو کو سنوارا ہے اور مغالطات کے خارزار کو صاف کیا ہے۔ حتی کہ درمیان میں آنے والے ضمنی مباحث کو بھی فاضل مصنف نے واضح سے واضح تر کرنے کی سعی کی ہے۔ مثلاً مولانا اصلاحی صاحب نے تفسیر کشاف و تفسیر کبیر کی تحسین کی ہے تو فاضل مصنف نے ان تفاسیر کی اصل حقیقت کو بھی نمایاں اور ان کے نقائص و خامیوں کو واضح کیا ہے۔
دوسرے، فاضل مصنف نے مولانا اصلاحی کے تضادات کو بھی ان کی اپنی تحریروں سے واضح کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ جس سے مولانا اصلاحی کی پریشاں فکری اور ان کے ذہنی ارتقاء یا انحطاط کا اندازہ ہو جاتا ہے، اس سے بھی اصلاحی صاحب کے فکر و نظر کی کجی اور نارسائی واضح ہوتی ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب کا المیہ یہ ہے کہ جب وہ متجددین سے مخاطب ہوتے ہیں اور ان کا رد فرماتے ہیں تو ان کا قلم سلفی رنگ اختیار کر لیتا ہے اور وہ سلف کی تعبیر و تشریح کی اہمیت کو اجاگر کرتے اور اس کی پابندی کو ضروری قرار دیتے ہیں، اسی طرح منکرین حدیث کے مقابلے میں وہ خم ٹھونک کر حدیث کی اہمیت و حجیت کا اثبات کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنا موضوع خطاب علماء کو بناتے ہیں تو خود ایک متجدد کا روپ دھار لیتے ہیں اور سلف کی تعبیرات کی پابندی تو کجا، انہیں پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے، اسی طرح جب کوئی حدیث صحیح ان کی عقل نارسا یا خانہ ساز نظریات کے خلاف ہو، تو حدیث کی حجیت میں اسی طرح مین میخ نکالنا شروع کر دیتے ہیں جو منکرین حدیث کا شیوہ ہے۔ اس وقت ان میں اور ایک منکر حدیث میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، وہی قلم، جو اثبات حجیت حدیث میں گوہر و جواہر اور لؤلؤ لالہ بکھیرتا، اور محدثین کی بے مثال مساعی حسنہ کی تعریف کے لئے وقف ہوتا ہے۔ معاً خارا شگاف بن جاتا اور حدیث میں کیڑے نکالنا اور محدثین کی مساعی کا استخفاف کرنا