کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 30
قبح کو واضح اور اس میں انکار حدیث کے مخفی جراثیم کو آشکارا کرے۔ مقام شکر ہے کہ اس دوسرے کام کی توفیق اللہ تعالیٰ نے ہمارے فاضل دوست اور محبّ مکرم جناب غازی عزیر صاحب (الجبیل، سعودی عرب) کو عطا فرمائی ہے؎
ایں سعادت بہ زور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
مولانا اصلاحی صاحب مبارکپور (ضلع اعظم گڑھ) کے قریب کسی بستی کے رہنے والے ہیں اور ان کے ناقد محترم جناب غازی عزیر صاحب کا تعلق بھی مبارکپور سے ہے۔ یوں دونوں کو ایک گونہ قرب مکانی حاصل ہے، گو اب جسماً و وطناً ایک دوسرے سے بعید اور فکراً و ذہناً ایک دوسرے سے ابعد (بہت زیادہ دور) ہیں۔ علاوہ ازیں مولانا اصلاحی صاحب کا دعویٰ ہے کہ انہیں صاحب تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی، مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ تعالیٰ سے شرف تلمذ حاصل ہے، جب کہ غازی عزیر صاحب، محدث مبارکپوری کے برادر زاد مولانا محمد امین اثری حفظہ اللہ کے صاحبزادے ہیں۔ گویا غازی صاحب محدث مبارکپوری کے پوتے ہیں۔ یوں مولانا اصلاحی اور غازی صاحب دونوں کا تعلق بھی مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری سے نہایت قریبی ہے، گو ایک کا تعلق تلمذاً ہے جب کہ دوسرے کا نسباً۔
یہ دونوں قسم کے تعلقات تو ایسے ہیں جو غیر اختیاری ہیں۔ اب ایک تیسرا تعلق جسے اختیاری کہا جا سکتا ہے، اللہ کی مشیت سے یہ قائم ہوا ہے کہ مولانا اصلاحی صاحب نے محدثین کے خلاف جو زہر پھیلایا ہے، غازی صاحب نے اس کا تریاق مہیا کیا ہے، حدیث پر جو ناوک افگنی کی ہے، اس کا دفاع کیا ہے، جو مغالطے دئیے ہیں، ان کا ازالہ کیا اور جو شبہات وارد کئے ہیں، ان کا جائزہ لیا ہے گویا مولانا اصلاحی صاحب نے حدیث کے بارے میں تشکیک پیدا کرنے کی جس بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے، غازی صاحب حفظہ اللہ نے اس کا علاج اور اس کے لئے داروئے شفا کا انتظام فرمایا ہے بشرطیکہ مریض کا حلق، ظبیب حاذق کا یہ جرعہ تلخ گوارا کر لے جس سے اس کے ذہن کا تنقیہ اور قلب و دماغ کا تزکیہ ہو جائے۔
7۔ واقعہ یہ ہے کہ غازی عزیر صاحب حفظہ اللہ کا یہ فاضلانہ مقالہ ایک نہایت مبسوط اور جامع کتاب ہے جس میں تحقیق اور حدیث رسول کے دفاع کا حق ادا کر دیا گیا ہے۔ مولانا اصلاحی صاحب ایک مشاق، پختہ کار صاحب قلم ہیں، انہوں نے ایک ہمدرد اور مشفق ناصح کے روپ میں نہایت ماہرانہ چابک دستی سے حدیث کے حصن حصین میں نقب لگانے کی نامبارک سعی کی تھی، جس سے بہت سے لوگ مغالطوں کا شکار ہو سکتے تھے۔ الحمدللہ غازی صاحب کو بھی اللہ نے تحقیق و انشاء کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا ہے اور انہوں نے اپنی ان دونوں صلاحیتوں کا اس کتاب میں بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے تحقیق کا حق بھی خوب ادا کیا ہے۔ بحث کے ہر گوشے کو واضح، معترض کی ہر دلیل کا مسکت جواب اور ہر مغالطے اور شبہے کا بہترین انداز سے ازالہ فرمایا ہے۔ اور انشاء و بیان کی جن اعلیٰ خوبیوں سے وہ بہرہ ور ہیں اسے بھی انہوں نے استعمال کیا ہے جس نے اس خالص علمی اور خشک موضوع کو بھی سدا بہار بنا دیا ہے۔