کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 29
لیتے ہیں کہ جس سے متنبیٰ قادیان کی نبوت کا اثبات بھی ہو سکے۔ اگر مرزائیوں کا دعویٰ ختم نبوت اس لئے تسلیم نہیں کہ وہ اس کا ایک من مانا مفہوم مراد لیتے ہیں اور اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے جو امت کا متفقہ مسلک ہے، تو پھر ان حضرات کا حجیت حدیث کے تسلیم کرنے کا دعویٰ کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے جو حجیت حدیث کا ایک خود ساختہ مفہوم مراد لیتے ہیں اور وہ مفہوم نہیں مانتے جو اس کا حقیقی مفہوم ہے اور جسے امت کے علماء و فقہاء تسلیم کرتے آئے ہیں۔ قرآن فہمی کے اصول میں اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے جناب غامدی صاحب اور دیگر بعض حضرات نے آیات مذکورہ کا مفہوم حدیث رسول سے قطعاً بے نیاز ہو کر محض اپنے زور فہم سے متعین کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انہوں نے تمام مسلمات کا ہی انکار کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں ان حضرات کا موقف بھی ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں، ایک دوسرے سے متضاد ہے (جس کی تفصیل محولہ ’’محدث‘‘ کے شمارے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے) گویا ایک متفقہ موقف سے انحراف کر کے انہوں نے کوئی ایک واضح موقف پیش کرنے کی بجائے اختلاف و انتشار کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور یہ حدیث رسول سے انحراف کا وہ لازمی و منطقی نتیجہ ہے جو بہرصورت نکلتا ہے اور ہمیشہ نکلے گا۔ بہرحال شرعی عدالت کی یہ بحث تو سخن گسترانہ طور پر زبان قلم پر آ گئی۔ تاہم اس کا تعلق بھی اس نقطہ سے ہی ہے جسے واضح کرنا ہمارا مقصد ہے، اسی لئے اسے یہاں ذکر کر دینا نہایت مناسب معلوم ہوا۔ اس سے اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ لغت یا اپنی فہم نارسا اور عقل کج ادا کے ذریعے سے قرآن کریم کی تفسیر کرنے کا اور حدیث رسول اور اسلاف کی تعبیر سے انحراف کا جو راستہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنایا اور اپنے تلامذہ اور حلقہ ارادت کو بتلایا، یہ وہی راستہ ہے جو کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ سرسید احمد خاں، غلام احمد پرویز اور عبداللہ چکڑالوی وغیرہم نے اختیار کیا، جس کا لازمی اور منطقی نتیجہ قرآنی مسلمات کا انکار اور تواتر و اجماع امت سے ثابت شدہ مسائل سے اعراض و انحراف ہے۔ بہت سے مسلمات اور اجماعی مسائل کا انکار مذکورہ حضرات نے کیا (جیسا کہ ان کی کتابوں اور تحریروں سے واضح ہے) اور اب اسی روش پر چلتے ہوئے کچھ مسلمات اور تواتر امت کا انکار مولانا اصلاحی اور ان کے تلامذہ کے ذریعے سے ہو رہا ہے، جس پر ان کی تحریریں شاہد عدل ہیں۔ یہ کوئی افتراء، الزام یا مفروضہ نہیں ہے۔فتشابهت قلوبهم و أفكارهم و أعمالهم اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کوئی صاحب علم و تحقیق سلفی افکار و تعبیرات کی روشنی میں مولانا اصلاحی صاحب کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ کا جائزہ لے اور اس کے تفردات اور شذوذ بلکہ اس کی کج فکریوں اور انحرافات کو طشت ازبام کرے، تاکہ ان ’’اہل قرآن‘‘ کی قرآن فہمی اور ان ’’اہل تدبر‘‘ کی ’’تدبری‘‘ کی حقیقت واضح ہو سکے۔ اسی طرح مولانا اصلاحی کے محاضرات کا بھی جو ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کے نام سے شائع ہوئے ہیں، جائزہ لے کر ان کے حسن و