کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 27
دی ہے، جب کہ عدالت میں یہ بات انہوں نے بڑے اعتماد اور بلکہ ادعاء کے ساتھ پیش کی تھی) جس کی وجہ سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو پیشہ ور طوائفیں ہیں ان کی سزا اس میں بیان کی گئی ہے، عام بدکار عورتوں کی یہ سزا نہیں ہے۔ پھر اسی پر بس نہیں کی گئی، یہ دعویٰ بھی انہوں نے کیا کہ قرآن و حدیث میں کہیں سرے سے ثبوت زنا کے لئے چار گواہوں کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اس لئے اثبات زنا کے لئے چار گواہوں کا نصاب ہی غیر ضروری ہے۔ زنا تو ایک گواہ بلکہ ایک بچے کی شہادت، بلکہ بغیر کسی شہادت کے قرائن کی بنیاد پر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اور قرآن کریم کی آیت [وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ]الآية جس میں چار مرد گواہوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس کی بابت ارشاد فرمایا (جو تحریف معنوی ہے) کہ اس میں ان لوگوں کی سزا بیان کی گئی ہے جو بیٹھے بٹھائے یوں ہی بغیر کسی واقعے کے صدور کے، کسی پر بدکاری کی تہمت لگا دیں۔ اس کا تعلق زنا کے اس الزام سے نہیں ہے جس کا فی الواقع ارتکاب کیا جا چکا ہو، کیونکہ اس کے ثبوت کے لئے تو کسی متعین نصاب شہادت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ عدالت میں موصوف نے حد اور تعزیر کے مابین فرق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم شائع کردہ خلاصہ میں اس نقطہ کو پتہ نہیں کیوں حذف کر دیا ہے؟ جناب غامدی صاحب کی یہ تمام باتیں قرآن و حدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہیں اور جیسا کہ خود موصوف نے عدالت میں تسلیم کیا کہ: ’’امت میں میں پہلا فرد ہوں جس کی یہ رائے ہے، حتی کہ اس رائے میں میں اپنے استاذ مولانا امین احسن اصلاحی سے بھی مختلف ہوں‘‘ (غامدی صاحب نے اپنے شائع کردہ خلاصہ میں اس ادعاء کو بھی حذف کر دیا ہے) غامدی صاحب نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس کے دلائل پر تو راقم بحث کر چکا ہے جو ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور میں 1991ء کے اوائل میں شائع ہو چکی ہے، یہاں اس تفصیل سے اس پہلو کی وضاحت مقصود ہے کہ فقہائے امت کے متفقہ مسلک سے انحراف نے، جو دراصل حجیت حدیث کے انکار پر مبنی ہے، موصوف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کتنے فخر اور تعلی سے وہ پوری امت میں اپنے منفرد ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس زیغ و ضلال اور من شذشذ – کا مصداق بننے سے بچائے۔ اسی طرح آیت مداینہ کی بابت، جس میں قرض کے سلسلے میں دو مرد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کا حکم ہے، ارشاد فرمایا، یہ محض ایک اخلاقی تعلیم ہے، کوئی اصول، ضابطہ اور متعین نصاب شہادت نہیں ہے۔ غامدی صاحب نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ تمام فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ زنا کے ثبوت کے لئے چار مسلمان گواہ ضروری ہیں، اور یہ قرآن کی نص [أَرْبَعَةً مِّنكُمْ](النساء، 15) سے ثابت ہے۔ اس لئے اس پر بھی اجماع ہے۔