کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 26
سننے کا موقع ملا، اس موضوع پر راقم اپنا مفصل مقالہ فاضل عدالت کے روبرو پہلے پیش کر چکا تھا، تاہم غامدی صاحب کے بیان کے بعد راقم نے فاضل عدالت کو خطاب کر کے کہا کہ غامدی صاحب نے تمام اسلامی مسلمات کا انکار کیا ہے، اس لئے ہمیں اس بیان پر بحث کرنے اور اس کا جواب دینے کا موقعہ دیا جائے۔ لیکن اس وقت کے چیف جسٹس جناب گل محمد مرحوم نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ یہ مجلس مناظرہ نہیں ہے، آپ دونوں ایک ایک رسالے کے ایڈیٹر ہیں، اپنے اپنے رسالوں میں یہ شوق پورا فرما لیں۔ بہرحال پھر راقم نے دوسرے ججوں سے مل کر غامدی صاحب کے بیان کا تحریری جواب عدالت میں دے دیا۔ نومبر 1990ء کے ’’اشراق‘‘ میں جناب غامدی صاحب نے اپنے اس بیان کا خلاصہ شائع کر دیا ہے جو انہوں نے فاضل عدالت کے روبرو پیش کیا تھا۔ اس خلاصہ میں اگرچہ وہ طمطراق، ہمہ دانی کا وہ دیندار اور زبان و بیان کے وہ تیور نہیں ہیں جو عدالت کے سامنے زبانی بیان میں تھے، تاہم بنیادی موقف تقریباً وہی ہے جو وہاں پیش کیا گیا تھا۔ اپنے اس بیان میں غامدی صاحب نے جن مسلمات کا انکار کیا، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے: [وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ]میں، الفاحشہ سے کیا مراد ہے؟ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، علماء و فقہاء نے کہا ہے کہ اس سے بے حیائی کی وہ قبیح ترین صوت مراد ہے جسے زنا کہا جاتا ہے، کیونکہ اس کی وضاحت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اس صحیح حدیث میں آ گئی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت مذکورہ میں جس ’’سبیل‘‘ کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا، وہ سبیل واضح کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کو رجم اور غیر شادی شدہ زانی کو کوڑے۔ اس حدیث نے یہاں فاحشہ کے مفہوم کو متعین اور اس جرم کے اثبات کے لئے چار مسلمان مرد گواہوں کو ضروری قرار دے دیا ہے۔ کیونکہ نصاب شہادت تو یہاں قرآن نے ہی بیان کر دیا ہے جس کا اعادہ سورہ نور کی آیت [وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ]الآية (سورہ نور-4) میں بھی کیا گیا ہے۔ اور زنا کی حد بالخصوص شادی شدہ زانی مرد و عورت کی حد حدیث رسول میں ’’سبیل‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرما دی گئی ہے۔ چنانچہ مذکورہ حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے تمام مفسرین امت اور تمام علماء و فقہاء مذکورہ حد زنا اور نصاب شہادت کو تسلیم کرتے ہیں، حتی کہ مولانا اصلاحی صاحب، جنہوں نے، خوارج کے بعد، امت میں سب سے پہلے حد رجم کا انکار کیا، وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیات مذکورہ میں بیان کردہ تعزیرات اگرچہ سورہ نور میں نازل شدہ حدود کے بعد منسوخ ہو گئیں لیکن بدکاری کے معاملے میں شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں بھی باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو ’’تفسیر تدبر قرآن‘‘ ج 2/37) لیکن غامدی صاحب نے اپنے عدالتی بیان میں کہا کہ ’’الفاحشہ‘‘ سے مراد زنا نہیں ہے نہ اس میں زنا کی سزا ہی بیان کی گئی ہے، بلکہ اس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے (اپنے خلاصہ میں غامدی صاحب نے استمرار والی بات حذف کر