کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 25
دیگر مشہور منکرین حدیث کی تحریریں پڑھ لیجئے، سب حدیث کے ماننے کے دعوے دار ہیں، کوئی بھی حدیث کی حجیت سے انکار نہیں کرتا ہے۔ پھر انہیں منکرین حدیث کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لئے کہ زبان سے حدیث رسول ماننے کے باوجود حدیث میں تشکیک پیدا کرنا اور محدثین کی سعی و جہد کو بے حیثیت قرار دینا، ان کا مشغلہ ہے، جس نے عملاً انہیں حدیث کا ہی منکر نہیں بنایا بلکہ بقول اصلاحی صاحب کے، ان کا قرآن پر ایمان کا دعویٰ بھی محل نظر ہی قرار پاتا ہے۔ بالکل یہی معاملہ مولانا اصلاحی اور ان کے تلامذہ کا ہے۔ وہ بھی گو انکار حدیث کے علم بردار نہیں ہیں لیکن وہ جس طرح حدیث کا استخفاف، حتی کہ رجم کی متواتر اور متفق علیہ روایات کا انکار کر رہے اور محدثین کے اصول و قواعد کو ناکافی قرار دے رہے ہیں، اس نے دبستان فراہی سے وابستہ افراد کو بھی منکرین حدیث ہی کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، کیونکہ حدیث کے بارے میں ان کی مذموم مساعی سے بھی حدیث ہی کا انکار لازم نہیں آ رہا، بلکہ قرآنی مسلمات سے بھی انحراف کا راستہ کھل رہا ہے۔ 5۔ چنانچہ مولانا اصلاحی صاحب کے تلامذہ میں سے سب سے نمایاں، ممتاز اور قریب جناب جاوید احمد غامدی کو دیکھ لیجئے، جو مولانا اصلاحی کو ’’امام‘‘ لکھتے ہیں۔ یوں اس گروہ کے امام اول مولانا حمید الدین فراہی، امام ثانی مولانا امین احسن اصلاحی قرار پاتے ہیں اور بمصداق ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، امام ثالث یہی غامدی صاحب ہیں۔ یہ کوئی استہزاء نہیں ہے۔ اگر اول الذکر دونوں بزرگ امام ہیں تو تیسرے امام یقیناً غامدی صاحب ہی ہیں۔ بہرحال مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ امام اول نے حدیث کے استخفاف اور اس سے بے اعتنائی کی جو بنیاد رکھی تھی، دوسرے امام (مولانا اصلاحی) کے رویے نے اسے انکار حدیث تک پہنچا دیا اور انہوں نے رجم کی احادیث اور دیگر بعض صحیح احادیث کو رد اور ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ کے ذریعہ سے تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک قرار دے دیا اور اب تیسرے امام نے قرآنی مسلمات کا بھی انکار شروع کر دیا ہے۔ اور انکار حدیث کا یہ وہ منطقی اور لازمی نتیجہ ہے جسے اصلاحی صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ بالآخر یہ گروہ بھی اپنے اس منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بارے میں ہماری یہ بات لوگوں کے لئے شاید ’’انکشاف‘‘ کا درجہ رکھتی ہو اور ممکن ہے بہت سے لوگ یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوں، لیکن یہ ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں: جون 1989ء میں وفاقی شرعی عدالت پاکستان (لاہور) میں تقریباً دو ہفتے مسئلہ شہادت نسواں پر بحث ہوئی۔ فاضل عدالت کی درخواست پر جناب غامدی صاحب نے بھی اپنا موقف پیش کیا، جس میں انہوں نے مسئلہ مذکور میں ہی مغرب زدگان کی ہم نوائی نہیں کی، بلکہ اور بھی کئی قرآنی مسلمات کا انکار کیا، بلکہ قرآن کریم کی معنوی تحریف کا بھی ارتکاب کیا۔ راقم بھی اس بحث میں، چونکہ مکمل طور پر شریک رہا تھا، اس لئے غامدی صاحب کا پورا بیان