کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 24
تھیں، اس کتاب میں ان کا ازالہ کیا گیا ہے اور ایسے نئے قواعد و اصول وضع کئے گئے ہیں کہ ان کی روشنی میں تمام احادیث کو نئے سرے سے پرکھا جا سکے۔ کتنا بڑا دعویٰ ہے؟ لیکن اسی بلند بانگ دعوے میں حدیث کا انکار مضمر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری جیسے امام فن نے بھی اگر کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دیا ہے تو محدثین کے اصول و قواعد میں ایسی خامیاں ہیں کہ ان کے ہوتے امام بخاری کے فیصلے کے برعکس صحیح حدیث ضعیف اور ضعیف حدیث صحیح ہو سکتی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اصلاحی صاحب کے گھڑے ہوئے اصولوں کی روشنی میں تمام ذخیرہ احادیث کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔ یہ انکار حدیث کا راستہ چوپٹ کھولنے کے مترادف نہیں ہے؟ اور کیا یہ محدثین کی تمام کاوشوں پر خط نسخ پھیرنا نہیں ہے؟
مولانا اصلاحی کے تلمذ یا اردت سے وابستہ حلقہ ان لیکچروں کو بھی مولانا اصلاحی کا ’’عظیم کارنامہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ لیکن یہ ایسا ہی عظیم کارنامہ ہے، جیسا کہ مولانا مودودی صاحب نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ لکھ کر عظمت صحابیت کے قصر رفیع میں نقب زنی کر کے سرانجام دیا ہے جس پر ان کے ایک غالی عقیدت مند (ماہر القادری مرحوم) نے یہ کہہ کر انہیں خراج تحسین پیش کیا تھا کہ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اس صدی کی عظیم ترین کتاب ہے۔‘‘ یا جیسے غلام احمد پرویز نے اپنے پرچے کا نام ’’طلوع اسلام‘‘ رکھ کر غروب اسلام کا کام سرانجام دیا ہے۔ یا جیسے مرزا غلام احمد قادیانی کی بابت اس کے پیروکار دعویٰ کرتے ہیں کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر کے پوری دنیا میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا علم بلند کر دیا ہے دراں حالیکہ اس نے بھی ختم نبوت پر ڈاکہ ڈالا ہے اور وہ نبی یا مسیح موعود نہیں، بلکہ دجال و کذاب ہے۔
برعکس نہند نام زنگی کافور دنیا کی عام روش ہے۔ لیکن فساد کا نام اصلاح یا شراب کا نام روح افزا رکھ لینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے، یہ غرور نفس یا دل کا بہلاوا اور تسویل شیطان ہے۔ بہرحال مولانا اصلاحی صاحب کی کتاب ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ ایک نہایت خطرناک کتاب ہے جس میں محدثین کی کاوشوں کی نفی یا ان کا استخفاف کر کے انکار حدیث کا راستہ چوپٹ کھول دیا گیا ہے، جس کے بعد قرآن کو ماننے کا دعویٰ بھی بے حیثیت قرار پاتا ہے۔
4۔ اور یہ کوئی مفروضہ، واہمہ اور تخیل کی کرشمہ آرائی نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جسے خود مولانا اصلاحی صاحب بھی تسلیم بلکہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ اپنے مقدمہ تفسیر میں منکرین حدیث کے رویے کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’منکرین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم و صلاۃ، حج و زکوۃ اور عمرہ و قربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور امت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے اس میں اپنی ہوائے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں، صریحا خود قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے‘‘ – (مقدمہ ’’تدبر قرآن‘‘ ص ف)
مولانا اصلاحی صاحب جن کو منکرین حدیث قرار دے رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنا مسلک انکار حدیث بتلاتے ہوں۔ بلکہ وہ بھی حدیث کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آپ غلام احمد پرویز، اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی اور