کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 23
اور لغت اور جاہلی ادب پر یا اپنی فہم و فراست پر یا مزعومہ قرائن پر زیادہ اعتماد کیا ہے۔ اس لئے اس میں بھی متعدد مقامات پر حدیث صحیح سے یا مسلک امت اور سلف کی تعبیرات سے انحراف پایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ تفسیر، تفسیر بالرأی الفاسد کا ایک ایسا نمونہ ہے جس کی مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی فاسد رائے اور حدیث کے انکار کا ایک نمونہ حد رجم کا بطور حد شرعی انکار ہے۔ اور بطور تعزیر پیشہ ور بدمعاشوں اور غنڈوں کے لئے اس کا اثبات ہے جو انہوں نے سورہ مائدہ کی آیت محاربہ کے لفظ ’’يُقَتَّلُوٓا۟‘‘ سے کشید کی ہے۔ حالانکہ رجم ایک ایسی حد ہے کہ اگر اسے نص پر مبنی تسلیم نہ کیا جائے (جیسا کہ اصلاحی صاحب تسلیم نہیں کرتے) تو پھر اسے تعزیر کے طور پر اپنے قیاس و استنباط سے کسی بھی جرم کی سزا کے لئے ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں ایذاء دے دے کر مارنے کا انداز پایا جاتا ہے۔ حالانکہ شریعت نے جانوروں تک کو ایذاء دے کر مارنے سے منع کیا ہے، اسی طرح مثلہ کرنے سے بھی سختی سے روکا گیا ہے۔ لیکن شریعت کے نزدیک ایک شادی شدہ شخص کا ارتکاب زنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس نے بطور عبرت یہ سزا ایسے مجرموں کے لئے رکھی ہے۔ اب اگر کوئی شخص شریعت کی اس نص (عمل رسول اور حکم رسول) ہی کو تسلیم نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ شادی شدہ زانی کی سزا بھی سو کوڑے ہی ہیں۔ تو اسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے کہ وہ تعزیر کے طور پر اپنی طرف سے اور اپنے قیاس سے کسی اور جرم کی یہ سزا تجویز کرے، جب کہ اس میں ایذاء دہی اور مثلے کا انداز پایا جاتا ہے جو شریعت اسلامیہ میں ممنوع ہے۔ اس سے تو زیادہ بہتر ’’قیاس‘‘ یا ’’اجتہاد‘‘ یہ تھا کہ اصلاحی صاحب سرے سے رجم کا ہی انکار فرما دیتے۔ بطور حد زانی محصن تو کیا ہی تھا، بطور تعزیر بھی کر دیتے، بطور تعزیر اس کا جواز تسلیم کرنے میں آخر کیا تک ہے؟ یہ حدیث رسول سے انکار کی وہ آفت ہے جو مولانا اصلاحی صاحب کی عقل و فہم پر پڑی ہے اور ایسا ’’اجتہاد‘‘ یا ’’استنباط‘‘ فرمایا ہے جس کی شرعی بنیاد تو پہلے ہی نہیں ہے، عقلی اور اخلاقی بنیاد سے بھی وہ محروم ہے۔ آہ سچ ہے ؎
دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو
دوسرا بڑا ثبوت ’’تدبر قرآن‘‘ کے بعد ’’تدبر حدیث‘‘ ہے۔ اسی لئے انہوں نے اپنے ادارے کا نام ’’ادارہ تدبر قرآن و حدیث‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اور قرآن پر تدبر کرنے، یعنی اپنی عقل و قیاس سے قرآنی حقائق کا حلیہ بگاڑنے کے بعد، اب حدیث کا روئے آبدار مسخ کرنے کی طرف عنان توجہ مبذول فرمائی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہوں نے چند محاضرات (لیکچروں) کا اہتمام فرمایا۔ انہی محاضرات کے مجموعے کا نام ’’مبادئ تدبر حدیث‘‘ نامی کتاب ہے جس میں حدیث کے پرکھنے کے تمام محدثانہ اصول کو ناکافی اور بے وقعت قرار دیتے ہوئے نئے اصول وضع کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے تاکہ محدثین کی بے مثال کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے اور لوگوں کو ایسے ہتھیار فراہم کر دئیے جائیں جنہیں استعمال کر کے وہ جس حدیث صحیح کو چاہیں رد کر دیں اور جس ضعیف اور باطل حدیث کو چاہیں، صحیح قرار دے لیں۔
3۔ دعویٰ تو یہ کیا گیا ہے کہ حدیث کے پرکھنے کے لئے محدثانہ اصول و قواعد میں جو خامیاں اور کوتاہیاں رہ گئی