کتاب: انکارِحدیث کا نیا روپ جلد 1 - صفحہ 22
میں قرآن کریم کی تفسیر و توضیح کے لئے احادیث و آثار کو ثانوی اور عربوں کے جاہلی ادب کو اولین حیثیت، اور اسی طرح سلف کی تعبیر کے مقابلے میں اپنی عقل و فہم کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دبستان فکر سے وابستہ اہل قلم کا رشتہ احادیث سے اور اسلاف سے کم ہو گیا، احادیث کا ذخیرہ ان کی نظروں میں غیر مستند ٹھہرا اور جاہلی ادب اور شعری دواوین، جن کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے، وہ مستند و معتبر قرار پائے، اپنی فہم و رائے کی اصابت پر انہیں یقین ہے اور اس کے مقابلے میں اجماع صحابہ و اجماع امت تک بے حیثیت ہے (جس کی سب سے بڑی دلیل ان کا گمراہانہ نظریہ رجم ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل گزر چکی ہے اور ’’تدبر قرآن‘‘ میں متعدد مقامات پر اس زیغ و ضلال کی مزید مثالیں موجود ہیں) اگر فکر فراہی میں یہ کجی نہ ہوتی تو کبھی اس گروہ کی طرف سے رجم کی متواتر احادیث کو رد کرنے کی اور اجماع صحابہ و اجماع امت کو نظر انداز کرنے کی شوخ چشمانہ جسارت کا ارتکاب نہ ہوتا۔ اس کجی نے ہی ان میں یہ استبداد رائے پیدا کیا اور انہیں یہ عزم و حوصلہ بخشا کہ ایک منصوص اور متفق علیہ حد کا نہ صرف نہایت بے دردی سے انکار کیا بلکہ حضرت ماعز اور غامدیہ عورت کو (نعوذ باللہ) پیشہ ور غنڈہ اور طوائف قرار دیا۔ رضی اللہ عنہما۔ بہرحال اس تفصیل سے مقصود اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ احادیث رسول سے بے اعتنائی، بلکہ ان کا انکار فکر فراہی کی بنیاد میں شامل ہے۔ اسی لئے شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ تعالیٰ نے آج سے تقریباً چالیس سال قبل مولانا مودودی مرحوم کے ’’مسلک اعتدال‘‘ کا رد کرتے ہوئے اپنے فاضلانہ مقالے ’’جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث‘‘ میں مولانا اصلاحی، شبلی نعمانی، حمید الدین فراہی، مولانا مودودی اور عام فرزندان ندوہ کے بارے میں تحریر فرمایا تھا کہ: ’’یہ حضرات حدیث کے منکر نہیں، لیکن ان کے انداز فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے اور طریقہ گفتگو سے انکار کے لئے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔‘‘ (حجیت حدیث، ص 254) پھر اسی مقالے میں آگے چل کر اپنی رائے کا اظہار فرمایا تھا کہ: ’’میری رائے میں مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے نظریات نہ صرف مسلک اہلحدیث کے خلاف ہیں بلکہ ان کے یہ نظریات تمام ائمہ حدیث کے بھی خلاف ہیں، ان میں آج کے جدید اعتزال و تجہم کے جراثیم مخفی ہیں۔‘‘ (حوالہ مذکور) اس وقت بہت سے حضرات مولانا سلفی مرحوم کی اس رائے پر چونکے ہوں گے اور استعجاب کا اظہار کیا ہو گا لیکن آج اس کی صداقت روز روشن کی طرح واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے اور اس میں قطعاً کوئی ابہام یا شک نہیں رہ گیا ہے، جس کا ایک بڑا ثبوت ان کی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ ہے، جو حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے زمانے میں منظر عام پر نہیں آئی تھی۔ اس میں مولانا اصلاحی صاحب نے احادیث و آثار سے اکثر مقامات پر سخت بے اعتنائی برتی ہے،